Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
قَالَ لَٮِٕنِ اتَّخَذۡتَ اِلٰهًا غَيۡرِىۡ لَاَجۡعَلَـنَّكَ مِنَ الۡمَسۡجُوۡنِيۡنَ‏ ﴿29﴾
فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دونگا ۔
قال لىن اتخذت الها غيري لاجعلنك من المسجونين
[Pharaoh] said, "If you take a god other than me, I will surely place you among those imprisoned."
Firaon kehney laga sunn ley! Agar tu ney meray siwa kissi aur ko mabood banaya tu mein tujhay qaidiyon mein daal doon ga.
کہنے لگا : یاد رکھو ، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو میں تمہیں ضرور ان لوگوں میں شامل کردوں گا جو جیل خانے میں پڑے ہوئے ہیں ۔
بولا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تمہیں قید کردوں گا ( ف۳٤ )
فرعون نے کہا ” اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں ۔ ” 24
۔ ( فرعون نے ) کہا: ( اے موسٰی! ) اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور ( گرفتار کر کے ) قیدیوں میں شامل کر دوں گا
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :24 اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی معبود کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا ۔ یعنی یہ کہ اسے بس پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا استحقاق پہنچتا ہے ، اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے استمداد و استعانت کے لیے دعائیں مانگیں ۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اور سیاسی معنوں میں بھی بالا دست ہے ، اور اسے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے ، اور انسانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون برتر مان کر اس کے آگے جھک جائیں ، یہ چیز زمین کے مجازی فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کر دی تھی ، نہ آج وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہیں ۔ وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں ہم مختار مطلق ہیں ، کسی معبود کو ہماری سیاست اور ہمارے قانون میں دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔ دنیوی حکومتوں اور بادشاہوں سے انبیاء علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مصلحین کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے ۔ انہوں نے ان سے خداوند عالم کی حاکمیت و بالا دستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے ، اور یہ اس کے جواب میں نہ صرف یہ کہ اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہر اس شخص کو مجرم اور باغی ٹھہرایا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے ۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اگر معاملہ پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا ہوتا تو اس کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰ دوسرے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ رب العالمین کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں ۔ اگر صرف اسی معنی میں توحید فی العبادت کی دعوت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو دی ہوتی تو اسے غضب ناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کچھ کرتا تو بس یہ کہ اپنا دین آبائی چھوڑنے سے انکار کر دیتا ، یا حضرت موسیٰ سے کہتا کہ میرے مذہب کے پنڈتوں سے مناظرہ کر لو ۔ لیکن جس چیز نے اسے غضبناک کر دیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اس طرح ایک سیاسی حکم پہنچایا کہ گویا وہ ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک حاکم برتر کا پیغامبر آ کر اس سے اطاعت امر کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ اس معنی میں وہ اپنے اوپر کسی کی سیاسی و قانونی برتری ماننے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ وہ یہ بھی گوارا نہ کر سکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم برتر مانے ۔ اسی لیے اس نے پہلے رب العالمین کی اصطلاح کو چیلنج کیا ، کیونکہ اس کی طرف سے لائے ہوئے پیغام میں محض مذہبی معبودیت کا نہیں بلکہ کھلا کھلا سیاسی اقتدار اعلیٰ کا رنگ نظر آتا تھا ۔ پھر جب حضرت موسیٰ نے بار بار تشریح کر کے بتایا کہ جس رب العالمین کا پیغام وہ لائے ہیں وہ کون ہے ، تو اس نے صاف صاف دھمکی دی کہ ملک مصر میں تم نے میرے اقتدار اعلیٰ کے سوا کسی اور کے اقتدار کا نام بھی لیا تو جیل کی ہوا کھاؤ گے ۔
فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ جب مباحثے میں فرعون ہارا دلیل وبیان میں غالب نہ آسکا تو قوت وطاقت کا مظاہرہ کرنے لگا اور سطوت وشوکت سے حق کو دبانے کا ارادہ کیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ علیہ السلام میرے سوا کسی اور کو معبود بنائے گا تو جیل میں سڑا سڑا کر تیری جان لے لونگا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ وعظ ونصیحت کر ہی چکے تھے آپ نے بھی ارادہ کیا کہ میں بھی اسے اور اس کی قوم کو دوسری طرح قائل کروں تو فرمانے لگے کیوں جی میں اگر اپنی سچائی پر کسی ایسے معجزے کا اظہار کروں کہ تمہیں بھی قائل ہونا پڑے تب؟ فرعون سو اس کے کیا کرسکتا تھا کہ کہا اچھا اگر سچا ہے تو پیش کر ۔ آپ نے سنتے ہی اپنی لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی ہی اسے زمین پر ڈال دیا ۔ بس اس کا زمین پر گرنا تھا کہ وہ ایک اژد ہے کی شکل بن گئی ۔ اور اژدہا بھی بہت بڑا تیز کچلیوں والا ہیبت ناک ڈراؤنی اور خوفناک شکل والا منہ پھاڑے ہوئے پھنکارتاہوا ۔ ساتھ ہی اپنے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہوا نکلا ۔ فرعون کی قسمت چونکہ ایمان سے خالی تھی ایسے واضح معجزے دیکھ کر بھی اپنی بدبختی پر اڑا رہا اور تو کچھ بن نہ پڑا اپنے ساتھیوں اور درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ تو جادوکے کرشمے ہیں ۔ بیشک اتنا تو میں بھی مان گیا کہ یہ اپنے فن جادوگری میں استاد کامل ہے ۔ پھر انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دشمنی پر آمادہ کرنے کے لئے ایک اور بات بنائی کہ یہ ایسے ہی شعبدے دکھا دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلے گا ۔ اور جب کچھ لوگ اس کے ساتھی ہوجائیں گے تو یہ علم بغاوت بلند کردے گا پھر تمہیں مغلوب کرکے اس ملک میں قبضہ کرلے گا تو اس کے استحصال کی کوشش ابھی سے کرنی چاہئے ۔ بتلاؤ تمہاری رائے کیا ہے؟ اللہ کی قدرت دیکھو کہ فرعونیوں سے اللہ نے وہ بات کہلوائی جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عام تبلیغ کا موقعہ ملے اور لوگوں پر حق واضح ہوجائے ۔ یعنی جادوگروں کو مقابلہ کے لئے بلوانا ۔