Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
وَمَاۤ اَسۡـــَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ‌ۚ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‌ۚ‏ ﴿109﴾
میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، میرا بدلہ تو صرف رب العالمین کے ہاں ہے ۔
و ما اسلكم عليه من اجر ان اجري الا على رب العلمين
And I do not ask you for it any payment. My payment is only from the Lord of the worlds.
Mein tum say iss per koi ajar nahi chahata mera badla to sirf rab-ul-aalameen kay haan hai.
اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے ۔
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے ،
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ 79
اور میں تم سے اس ( تبلیغِ حق ) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ، میرا اجر تو صرف سب جہانوں کے رب کے ذمہ ہے
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :79 یہ اپنی صداقت پر حضرت نوح کی دوسری دلیل ہے ۔ پہلی دلیل یہ تھی کہ دعوائے نبوت سے پہلے میری ساری زندگی تمہارے درمیان گزری ہے اور آج تک تم مجھے ایک امین آدمی کی حیثیت سے جانتے رہے ہو ۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، تم کسی ایسے ذاتی فائدے کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس کام سے مجھے حاصل ہو رہا ہو یا جس کے حصول کی میں کوشش کر رہا ہوں ۔ اس بے غرضانہ طریقہ سے کسی ذاتی نفع کے بغیر جب میں اس دعوت حق کے کام میں شب و روز اپنی جان کھپا رہا ہوں ، اپنے اوقات اور اپنی محنتیں صرف کر رہا ہوں اور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا رہا ہوں ، تو تمہیں باور کرنا چاہیے کہ میں اس کام میں مخلص ہوں ، ایمانداری کے ساتھ جس چیز کو حق جانتا ہوں اور جس کی پیروی میں خلق خدا کی فلاح دیکھتا ہوں وہی پیش کر رہا ہوں ، کوئی نفسانی جذبہ اس کا محرک نہیں ہے کہ اس کی خاطر میں جھوٹ گھڑ کر لوگوں کو دھوکا دوں ۔ یہ دونوں دلیلیں ان اہم دلائل میں سے ہیں جو قرآن مجید نے بار بار انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی ہیں اور جن کو وہ نبوت کے پرکھنے کی کسوٹی قرار دیتا ہے ۔ نبوت سے پہلے جو شخص ایک معاشرے میں برسوں زندگی بسر کر چکا ہو اور لوگوں نے ہمیشہ ہر معاملہ میں اسے سچا اور راستباز آدمی پایا ہو ، اس کے متعلق کوئی غیر متعصب آدمی مشکل ہی سے یہ شک کر سکتا ہے کہ وہ یکایک خدا کے نام سے اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر اتر آئے گا کہ اسے نبی نہ بنایا گیا ہو اور وہ کہے کہ خدا نے مجھے نبی بنایا ہے ۔ پھر دوسری اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ ایسا سفید جھوٹ کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ تو نہیں گھڑا کرتا ۔ لا محالہ کوئی نفسانی غرض ہی اس فریب کاری کی محرک ہوتی ہے ۔ اور جب کوئی شخص اپنی اغراض کے لیے اس طرح کی فریب کاری کرتا ہے تو اخفا کی تمام کوششوں کے باوجود اس کے آثار نمایاں ہو کر رہتے ہیں ۔ اسے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے ہیں جن کے گھناؤنے پہلو گرد و پیش کے معاشرے میں چھپائے نہیں چھپ سکتے ۔ اور مزید برآں وہ اپنی پیری کی دکان چمکا کر کچھ نہ کچھ اپنا بھلا کرتا نظر آتا ہے ۔ نذرانے وصول کیے جاتے ہیں ، لنگر جاری ہوتے ہیں ، جائدادیں بنتی ہیں ، زیور گھڑے جاتے ہیں ، اور فقیری کا آستانہ دیکھتے دیکھتے شاہی دربار بنتا چلا جاتا ہے ۔ لیکن جہاں اس کے بر عکس نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کی ذاتی زندگی ایسے فضائل اخلاق سے لبریز نظر آئے کہ اس میں کہیں ڈھونڈے سے بھی کسی فریب کارانہ ہتھکنڈے کا نشان نہ مل سکے ، اور اس کام سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا تو در کنار ، وہ اپنا سب کچھ اسی خدمت بے مزد کی نذر کر دے ، وہاں جھوٹ کا شبہ کرنا کسی معقول انسان کے لیے ممکن نہیں رہتا ۔ کوئی شخص جو عقل بھی رکھتا ہو اور بے انصاف بھی نہ ہو ، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ آخر ایک اچھا بھلا آدمی ، جو اطمینان کی زندگی بسر کر رہا تھا ، کیوں بلا وجہ ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھے جبکہ اسے کوئی فائدہ اس جھوٹ سے نہ ہو ، بلکہ وہ الٹا اپنا مال ، اپنا وقت اور اپنی ساری قوتیں اور محنتیں اس کام میں کھپا رہا ہو اور بدلے میں دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہا ہو ۔ ذاتی مفاد کی قربانی آدمی کے مخلص ہونے کی سب سے زیادہ نمایاں دلیل ہوتی ہے ۔ یہ قربانی کرتے جس کو سالوں بیت جائیں اسے بد نیت یا خود غرض سمجھنا خود اس شخص کی اپنی بد نیتی کا ثبوت ہوتا ہے جو ایسے آدمی پر یہ الزام لگائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المؤمنون ، حاشیہ 70 ) ۔