سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :141
اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ شیاطین کچھ سن گن لے کر اپنے اولیاء پر القاء کرتے ہیں اور اس میں تھوڑی سی حقیقت کے ساتھ بہت سا جھوٹ ملا دیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے لپاٹیے کاہن شیاطین سے کچھ باتیں سن لیتے ہیں اور پھر اپنی طرف سے بہت سا جھوٹ ملا کر لوگوں کے کانوں میں پھونکتے پھرتے ہیں ۔ اس کی تشریح ایک حدیث میں بھی آئی ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ بعض لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا وہ کچھ نہیں ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ بعض اوقات تو وہ ٹھیک بات بتا دیتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ٹھیک بات جو ہوتی ہے اسے کبھی کبھار جن لے اڑتے ہیں اور جاکر اپنے دوست کے کان میں پھونک دیتے ہیں ، پھر وہ اس کے ساتھ جھوٹ کی بہت سی آمیزش کر کے ایک داستان بنا لیتا ہے ۔