Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا وَرَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ‏ ﴿5﴾
آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مشرقوں کا رب وہی ہے ۔
رب السموت و الارض و ما بينهما و رب المشارق
Lord of the heavens and the earth and that between them and Lord of the sunrises.
Aasmano aur zamin aur inn kay darmiyan ki tamam cheezon aur mashriqon ka rab wohi hai.
جو تمام آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے ، اور ان تمام مقامات کا مالک جہاں سے ستارے طلوع ہوتے ہیں ۔
مالک آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور مالک مشرقوں کا ( ف٤ )
وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام ان چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں ، اور سارے مشرقوں 3 کا مالک 4 ۔
۔ ( جو ) آسمانوں اور زمین کا اور جو ( مخلوق ) اِن دونوں کے درمیان ہے اس کا رب ہے ، اور طلوعِ آفتاب کے تمام مقامات کا رب ہے
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :3 سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے ۔ نیز ساری زمین پر وہ بیک وقت طابع نہیں ہو جاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے ۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا ، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے ، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں ( المعارج ۔ 40 ) ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :4 ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے ، اور وہی درحقیقت معبود ہو سکتا ہے ، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے ۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب ( یعنی مالک اور حاکم اور مربی و پروردگار ) کوئی ہو اور الٰہ ( عبادت کا مستحق ) کوئی اور ہو جائے ۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر ، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا ، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے ، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے ۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت کرنا ، دونوں صریح خلاف عقل و فطرت ہیں ۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے ۔ رہیں بے اقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے ، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے ، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کارروائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں ۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے ۔