Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِزِيۡنَةِ اۨلۡكَوَاكِبِۙ‏ ﴿6﴾
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا ۔
انا زينا السماء الدنيا بزينة الكواكب
Indeed, We have adorned the nearest heaven with an adornment of stars
Hum ney aasman-e-duniya ko sitaron ki zeenat say aaraasta kiya.
بیشک ہم نے نزدیک والے آسمان کو ستاروں کی شکل میں ایک سجاوٹ عطا کی ہے ۔
اور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو ( ف۵ ) تاروں کے سنگھار سے آراستہ کیا ،
ہم نے آسمان5 دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے
بے شک ہم نے آسمانِ دنیا ( یعنی پہلے کرّۂ سماوی ) کو ستاروں اور سیاروں کی زینت سے آراستہ کر دیا
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :5 آسمان دنیا سے مراد قریب کا آسمان ہے ، جس کا مشاہدہ کسی دوربین کی مدد کے بغیر ہم برہنہ آنکھ سے کرتے ہیں ۔ اس کے آگے جو عالم مختلف طاقتوں کی دوربینوں سے نظر آتے ہیں ، اور جن عالَموں تک ابھی ہمارے وسائل مشاہدہ کی رسائی نہیں ہوئی ہے ، وہ سب دور کے آسمان ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ سماء کسی متعین چیز کا نام نہیں ہے بلکہ قدیم ترین زمانے سے آج تک انسان بالعموم یہ لفظ عالَمِ بالا کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے ۔
شیاطین اور کاہن ۔ آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا ۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں ۔ اس کے ستاروں کی ، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيْرِ Ĉ۝ ) 67- الملك:5 ) ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ ۔ اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی ۔ اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے ۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے ، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے ، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ۔ یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے ۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے ۔ اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت ( حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 23؀ ) 34- سبأ:23 ) ، کی تفسیر میں بیان کردی ہیں ، جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں ، جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے ۔ ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہدیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے ۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں ، ثاقب سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے ، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ شیاطین پہلے جاکر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آکر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا ، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلادیا جاتا ہے ، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے چنانچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جاکر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا ۔ اس کی پوری تحقیق اللہ نے چاہا تو آیت ( وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا Ď۝ۙ ) 72- الجن:8 ) ، کی تفسیر میں آئے گی ۔