Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَنَظَرَ نَظۡرَةً فِى النُّجُوۡمِۙ‏ ﴿88﴾
اب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی ۔
فنظر نظرة في النجوم
And he cast a look at the stars
Abb ibrahim ( alh-e-salam ) ney aik nigah sitaron ki taraf uthaee.
اس کے ( کچھ عرصے ) بعد انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نگاہ ڈال کر دیکھا ۔
پھر اس نے ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا ( ف۸٦ )
پھر 47 اس نے تاروں پر ایک نگاہ ڈالی 48
پھر ( ابراہیم علیہ السلام نے اُنہیں وہم میں ڈالنے کے لئے ) ایک نظر ستاروں کی طرف کی
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :47 اب ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات سورہ ( آیات 51 تا 73 ) اور سورہ عنکبوت ( آیات 16 تا 27 ) میں گزر چکی ہیں ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :48 ابن ابی حاتم نے مشہور تابعی مفسر قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اہل عرب نَظَرَ فِی النُّجُوْمِ ( اس نے تاروں پر نگاہ ڈالی ) کے الفاظ محاصرے کے طور پر اس معنی میں بولا کرتے ہیں کہ اس شخص نے غور کیا ، یا وہ شخص سوچنے لگا ۔ علامہ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ویسے بھی یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو وہ آسمان کی طرف ، یا اوپر کی جانب کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے ، پھر سوچ کر جواب دیتا ہے ۔
بت کدہ آذر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے ۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ نے اپنا دینی کام نکال لیا ۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے ۔ حضرت فتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں ۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی ۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں ۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں ۔ ایک حدیث میں آیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان ( فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ 89؀ ) 37- الصافات:89 ) اور ان کا فرمان ( قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63؀ ) 21- الأنبياء:63 ) اور ایک ان کا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا ۔ تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں ۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں ، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بےنیاز کردیتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو ۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہوگیا ہے ۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے ۔ حضرت سعید کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرمادیا کہ میں مقیم ہوں ۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقینا ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جب آپ کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ کو بھی مجبور کرنے لگی آپ ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے ۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے ۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آکر خلیل اللہ نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا ۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہوجائیں گے پھر ہم کھالیں گے ۔ ابراہیم نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ بولتے کیوں نہیں ۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جاسکے ، جیسا کہ سورہ انبیاء میں گذر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کرلیا کہ ہونہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے ( علیہ الصلوۃ والسلام ) اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل علیہ السلام کے پاس دوڑے ، بھاگے ، دانت پیستے ، تلملائے کوستے گئے ۔ خلیل اللہ کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں ما مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ الذی کے معنی میں ہو ، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے ۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے ۔ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آکر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو ۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی ۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی ۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہنچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کردیا ۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورہ انبیاء میں گذر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے ۔