Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَتَرَكۡنَا عَلَيۡهِ فِى الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏ ﴿129﴾
ہم نے ( الیاس علیہ السلام ) کا ذکر خیر پچھلوں میں بھی باقی رکھا ۔
و تركنا عليه في الاخرين
And We left for him [favorable mention] among later generations:
Hum ney ( ilyas alh-e-salam ) ka zikar-e-khair pichlon mein bhi baqi rakha.
اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان میں ہم نے یہ روایت قائم کی ۔
اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی ،
اور الیاس کا ذکر خیر ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا 73 ۔
اور ہم نے ان کا ذکرِ خیر ( بھی ) پیچھے آنے والوں میں برقرار رکھا
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :73 حضرت الیاس علیہ السلام کو ان کی زندگی میں تو بنی اسرائیل نے جیسا کچھ ستایا اس کی داستان اوپر گزر چکی ہے ، مگر بعد میں وہ ان کے ایسے گرویدہ و شیفتہ ہوئے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کم ہی لوگوں کو انہوں نے ان بڑھ کر جلیل القدر مانا ہو گا ۔ ان کے ہاں مشہور ہو گیا کہ الیاس علیہ السلام ایک بگولے میں آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں ( 2 سلاطین ، باب دوم ) اور یہ کہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب ملاکی میں لکھا ہے : دیکھو ، خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا ( 4:5 ) حضرت یحیٰی اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعثت کے زمانہ میں یہودی بالعموم تین آنے والوں کے منتظر تھے ۔ ایک حضرت الیاس ۔ دوسرے مسیح ۔ تیسرے وہ نبی ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔ جب حضرت یحییٰ کی نبوت شروع ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو اصطباغ دنیا شروع کیا تو یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے ان کے پاس جاکر پوچھا کیا تم مسیح ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم ایلیاہ ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم وہ نبی ہو؟ انہوں نے کہا میں وہ بھی نہیں ہوں ۔ تب انہوں نے کہا اگر تم نہ مسیح ہو ، نہ ایلیاہ ، نہ وہ نبی ، تو پھر تم بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟ ( یوحنا 1:19 ۔ 26 ) ۔ پھر کچھ مدت بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا غلغلہ بلند ہوا تو یہودیوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ شاید ایلیاہ نبی آ گئے ہیں ( مرقس 6:15 ۔ 15 ) خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہوا تھا کہ ایلیاہ نبی آنے والے ہیں ۔ مگر حضرت نے یہ فرما کر ان کی غلط فہمی کو رفع فرمایا کہ ایلیاہ تو آ چکا ، اور لوگوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا ۔ اس سے حواری خود جان گئے کہ دراصل آنے والے حضرت یحییٰ تھے نہ کہ آٹھ سو برس پہلے گزرے ہوئے حضرت الیاس ( متی 11:14 اور متی 17:10 ۔ 13 ) ۔