Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّعَادٌ وَّفِرۡعَوۡنُ ذُو الۡاَوۡتَادِۙ‏ ﴿12﴾
ان سے پہلے بھی قوم نوح اور عاد اور میخوں والے فرعون نے جھٹلایا تھا ۔
كذبت قبلهم قوم نوح و عاد و فرعون ذو الاوتاد
The people of Noah denied before them, and [the tribe of] 'Aad and Pharaoh, the owner of stakes,
Inn say pehlay bhi qom-e-nooh aur aad aur meekhon walay firaon ney jhutlaya tha.
ان سے پہلے نوح کی قوم ، قوم عاد اور میخوں والے فرعون نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا تھا ۔
ان سے پہلے جھٹلا چکے ہیں نوح کی قوم اور عاد اور چومیخا کرنے والے فرعون ( ف۱۸ )
ان سے پہلے نوح ( علیہ السلام ) کی قوم ، اور عاد ، اور میخوں والا فرعون 13 ،
اِن سے پہلے قومِ نوح نے اور عاد نے اور بڑی مضبوط حکومت والے ( یا میخوں سے اذیّت دینے والے ) فرعون نے ( بھی ) جھٹلایا تھا
سورة صٓ حاشیہ نمبر :13 فرعون کے لیے ذی الا وتاد ( میخوں والا ) یا تو اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا میخ پر ٹھکی ہوئی ہو ۔ یا اس بنا پر کہ اس کے کثیر التعداد لشکر جہاں ٹھہرتے تھے وہاں ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں ٹھکی نظر آتی تھیں ۔ یا اس بنا پر کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اسے میخیں ٹھنک کر عذاب دیا کرتا تھا ۔ اور ممکن ہے کہ میخوں سے مراد اہرام مصر ہوں جو زمین کے اندر میخ کی طرح ٹھکے ہوئے ہیں ۔
ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہو چکے ہیں کہ کس طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے ۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور زور میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آ چکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی ۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے ۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہو گی کہ جس کے کان میں پڑی بیہوش و بےجان ہو گیا ۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کر دیا ہے ۔ قط کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں ۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا ۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا ۔ یہی بات ٹھیک ہے ضحاک اور اسماعیل کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے مقابلے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی فراست ۔ ذالاید سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀ ) 51- الذاريات:47 ) ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی ۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے ۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے ، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے ۔ پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کر دیا تھا ۔ وہ آپ کے ساتھ سورج کے ڈھلنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے ۔ جیسے فرمان ہے ( يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10۝ۙ ) 34- سبأ:10 ) یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گذرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ وہ بھی تلاوت میں مشغول ہو جاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت حضرت ام ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے ( اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ ) 38-ص:18 ) ۔ عبداللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی ۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں ، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے حضرت ابن عباس جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے آج مجھے معلوم ہوا کہ ( يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ ) 38-ص:18 ) والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا ۔ جب حضرت داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور حضرت داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے ۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کر دی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں ۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی ۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی ۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا ۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کرلی ہے ۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی گواہ پیش نہ کر سکا آپ نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا ۔ رات کو حضرت داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کر دو ۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کر دیا جائے اس نے کہا اے اللہ کے نبی آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہو جا ۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کرلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا ۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کر دیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں ۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا ۔ اب تو حضرت داؤد کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل ، زیرکی اور دانائی ، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا ، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا ۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے ۔ غرض حضرت داؤد معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کر لیتے تھے ۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی عدل پر مبنی ہوتا تھا ۔ آپ ہی نے اما بعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخطاب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے ۔