Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَيۡدِ‌ۚ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ‏ ﴿17﴾
آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد ( علیہ السلام ) کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا ۔
اصبر على ما يقولون و اذكر عبدنا داود ذا الايد انه اواب
Be patient over what they say and remember Our servant, David, the possessor of strength; indeed, he was one who repeatedly turned back [to Allah ].
Aap inn ki baton per sabar keren aur humaray banday dawood ( alh-e-salam ) ko yaad keren jo bari qooat wala tha yaqeenan woh boht rujoo kerney wala tha.
۔ ( اے پیغمبر ) یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو ، اور ہمارے بندے داؤد ( علیہ السلام ) کو یاد کرو جو بڑے طاقتور تھے ۔ ( ٩ ) وہ بیشک اللہ سے بہت لو لگائے ہوئے تھے ۔
تم ان کی باتوں پر صبر کرو اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں والے کو یاد کرو ( ف۲٤ ) بیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے ( ف۲۵ )
اے نبی ، صبر کرو ان باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں 16 ، اور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو 17 جو بڑی قوتوں کا مالک تھا 18 ۔ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا ۔
۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) جو کچھ وہ کہتے ہیں آپ اس پر صبر جاری رکھیئے اور ہمارے بندے داؤد ( علیہ السلام ) کا ذکر کریں جو بڑی قوت والے تھے ، بے شک وہ ( ہماری طرف ) بہت رجوع کرنے والے تھے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :16 اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے ، اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا ۔ اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :17 اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو ۔ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی ۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں ، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں ( حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول ، صفحہ 191 ۔ جلد دوم ، صفحات 597 و 624 ۔ جلد سوم ، صفحات 173 تا 176 و 560 ۔ 561 ۔ جلد چہارم ، حواشی سورہ صفحہ نمبر 14 تا 16 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد ، ہاتھوں والا ۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں ، دوسری زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ہاتھوں والے تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے ۔ ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جسمانی طاقت ، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا ۔ فوجی اور سیاسی طاقت ، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی ۔ اخلاقی طاقت ، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے ۔ اور عبادت کی طاقت ، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود ، صحیحین کی روایت کے مطابق ، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرداء کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَانَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ ، وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے ۔