Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَهَلۡ اَتٰٮكَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ‌ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَۙ‏ ﴿21﴾
اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی ( بھی ) خبر ملی؟ جبکہ وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے ۔
و هل اتىك نبؤا الخصم اذ تسوروا المحراب
And has there come to you the news of the adversaries, when they climbed over the wall of [his] prayer chamber -
Aur kiya tujhay jhagra kerney walon ki ( bhi ) khabar mili? Jab kay woh deewar phaand ker mehrab mein aagaye.
اور کیا تمہیں ان مقدمہ والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پر چڑھ کر عبادت گاہ میں گھس آئے تھے؟ ( ١١ )
اور کیا تمہیں ( ف۳۳ ) اس دعوے والوں کی بھی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر داؤد کی مسجد میں آئے ( ف۳٤ )
پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے ان مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے؟21 ۔
اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں کی خبر پہنچی؟ جب وہ دیوار پھاند کر ( داؤد علیہ السلام کی ) عبادت گاہ میں داخل ہو گئے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :21 حضرت داؤد کا ذکر جس غرض کے لیے اس مقام پر کیا گیا ہے اس سے مقصود دراصل یہی قصہ سنانا ہے جو یہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے ان کی جو صفات عالیہ بطور تمہید بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ داؤد علیہ السلام ، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے ، کس مرتبے کے انسان تھے ۔
مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایاتوں سے لیا گیا ہے ۔ حدیث سے ثابت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف ۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے ۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے ۔ عزنی الخ ، سے مطلب بات چیت میں غالب آ جانا دوسرے پر چھا جانا ہے ۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے ۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا ۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں ۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ( بخاری وغیرہ ) نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ! میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی ۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ سجدہ کیا ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورہ ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا ۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ( احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورہ ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہو چنانچہ آپ اترے اور سجدہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا ۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہو گی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے ۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے ۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد علیہ السلام کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو ۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی ۔ اب حضرت داؤد علیہ السلام اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا ۔