Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰكَ خَلِيۡفَةً فِى الۡاَرۡضِ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الۡهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا يَوۡمَ الۡحِسَابِ‏ ﴿26﴾
اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے ۔
يداود انا جعلنك خليفة في الارض فاحكم بين الناس بالحق و لا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله ان الذين يضلون عن سبيل الله لهم عذاب شديد بما نسوا يوم الحساب
[We said], "O David, indeed We have made you a successor upon the earth, so judge between the people in truth and do not follow [your own] desire, as it will lead you astray from the way of Allah ." Indeed, those who go astray from the way of Allah will have a severe punishment for having forgotten the Day of Account.
Aey dawood! Hum ney tumhen zamin mein khalifa bana diya tum logon kay darmiyan haq kay sath faislay kero aur apni nafsani khuwaish ki perwi na kero werna woh tumhen Allah ki raah say bhatka deygi yaqeenan jo log Allah ki raah say bhatak jatay hain unn kay liye sakht azab hai iss liye kay unhon ney hisab kay din ko bhula diya hai.
اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرو ، اور نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو ، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی ۔ یقین رکھو کہ جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ، ان کے لیے سخت عذاب ہے ، کیونکہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا تھا ۔
اے داؤد بیشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا ( ف٤۱ ) تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دے گی ، بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس پر کہ وہ حساب کے دن کو بھول بیٹھے ( ف٤۲ )
۔ ( ہم نے اس سے کہا ) ‘’ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے ‘’ 28 ع
اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں ( اپنا ) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے ( یا حکومت ) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ ( یہ پیروی ) تمہیں راہِ خدا سے بھٹکا دے گی ، بے شک جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :28 یہ وہ تنبیہ ہے جو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے اور بلندی درجات کی بشارت دینے کے ساتھ حضرت داؤد کو فرمائی ۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا ، اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرمانروا کو زیب نہ دیتا تھا ۔ یہاں پہنچ کر تین سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ اول یہ کہ وہ فعل کیا تھا ؟ دوسرے یہ کہ اس سیاق و سباق میں اس کا ذکر کس مناسبت سے کیا گیا ہے؟ جن لوگوں نے بائیبل ( عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب مقدس ) کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں حضرت داؤد پر اُوریاہ حِتّی ( Orian the Hittite ) کی بیوی سے زنا کرنے ، اور پھر اور یاہ کو ایک جنگ میں قصداً ہلاک کروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لینے کا صاف صاف الزام لگایا گیا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہی عورت ، جس نے ایک شخص کی بیوی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو داؤد کے حوالے کیا تھا ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں تھی ۔ یہ پورا قصہ بائیبل کی کتاب سموئیل دوم ، باب 11 ۔ 12 میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔ نزول قرآن سے صدیوں پہلے یہ بائیبل میں درج ہو چکا تھا ۔ دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو بھی اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کرتا ، یا اسے سنتا تھا ، وہ اس قصے سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اس پر ایمان بھی لاتا تھا ۔ انہی لوگوں کے ذریعہ سے یہ دنیا میں مشہور ہوا اور آج تک حال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بنی اسرائیل اور عبرانی مذہب کی تاریخ پر کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جاتی جس میں حضرت داؤد کے خلاف اس الزام کو دہرایا نہ جاتا ہو ۔ اس مشہور قصے میں یہ بات بھی ہے کہ: خداوند نے نَاتَن کو داؤد کے پاس بھیجا ۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے ۔ ایک امیر ، دوسرے غریب ۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلے تھے ۔ پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالا تھا ۔ اور وہ اس کے اور اس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی ۔ وہ اسی کے نوالے میں کھاتی اور اسکے پیالہ سے پیتی اور اس کی گود میں سوتی تھی اور اس کے لیے بطور بیٹی کے تھی ۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا ۔ سو اس نے مسافر کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلے میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی ۔ تب داؤد کا غضب اس شخص پر بشدت بھڑکا اور اس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم ، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے ۔ اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا ۔ تب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے ـــــــ تو نے حتّی اور یاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی غمّون کی تلوار سے قتل کروایا ۔ ( 2 ۔ سموئیل ، باب 12 ۔ فقرات 1 تا 11 ) اس قصے اور اس کی اس شہرت کی موجودگی میں یہ ضرورت باقی نہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی تفصیلی بیان دیا جاتا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنی کتاب پاک میں ایسی باتوں کو کھول کر بیان کرے ۔ اس لیے یہاں پردے پردے ہی میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اہل کتاب نے اسے بنا کیا دیا ہے ۔ اصل واقعہ جو قرآن مجید کے مذکورہ بالا بیان سے صاف سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اور یاہ ( یا جو کچھ بھی اس شخص کا نام رہا ہو ) سے محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ اور چونکہ یہ خواہش ایک عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جلیل القدر فرمانروا اور ایک زبردست دینی عظمت رکھنے والی شخصیت کی طرف سے رعایا کے ایک فرد کے سامنے ظاہر کی گئی تھی ، اس لیے وہ شخص کسی ظاہری جبر کے بغیر بھی اپنے آپ کو اسے قبول کرنے پر مجبور پا رہا تھا ۔ اس موقع پر قبل اس کے کہ وہ حضرت داؤد کی فرمائش کی تعمیل کرتا ، قوم کے دو نیک آدمی اچانک حضرت داؤد کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ایک فرضی مقدمے کی صورت میں یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیا ۔ حضرت داؤد ابتداء میں تو یہ سمجھے کہ یہ واقعی کوئی مقدمہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اسے سن کر اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ لیکن زبان سے فیصلہ کے الفاظ نکلتے ہی ان کے ضمیر نے تنبیہ کی کہ یہ تمثیل پوری طرح ان کے اور اس شخص کے معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے ، اور جس فعل کو وہ ظلم قرار دے رہے ہیں اس کا صدور خود ان سے اس شخص کے معاملہ میں ہو رہا ہے ۔ یہ احساس دل میں پیدا ہوتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور توبہ کی اور اپنے اس فعل سے رجوع فرما لیا ۔ بائیبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی؟ یہ بات بھی تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ میں آجاتی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونی چاہیے ۔ اس خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی ۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تو بے تکلف اس سے درخواست کر دیتا تھا کہ اسے میرے لیے چھوڑ دے ۔ ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا ۔ بلکہ بسا اوقات دوست ایک دوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دوسرا اس سے شادی کر لے ۔ لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو اس امر کا احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ہے ، مگر ایک فرمانروا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جائے تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی ۔ اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامل اپنی اس خواہش سے دست بردار ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی ۔ مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش اور کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا ، اور انہوں نے اس سے نکاح کر لیا ، تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کر دی ، اور یہ خبیث نفس اس وقت اور زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دشمن ہو گیا ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 582 ) ۔ ان محرکات کے زیر اثر یہ قصہ تصنیف کر ڈالا گیا کہ حضرت داؤد نے معاذاللہ اور یاہ کی بیوی کو اپنے محل کی چھت پر سے اس حالت میں دیکھ لیا تھا کہ وہ برہنہ نہا رہی تھی ۔ انہوں نے اس کو اپنے ہاں بلوایا اور اس سے زنا کا ارتکاب کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئی ۔ پھر انہوں نے اور یاہ کو بنی عمون کے مقابلہ پر جنگ میں بھیج دیا اور فوج کے کمانڈر ہوآب کو حکم دیا کہ اسے لڑائی میں ایسی جگہ مقرر کر دے جہاں وہ لازماً مارا جائے ۔ اور جب وہ مارا گیا تو انہوں نے اس کی بیوی سے شادی کر لی ، اور اسی عورت کے پیٹ سے سلیمان ( علیہ السلام ) پیدا ہوئے ۔ یہ تمام جھوٹے الزامات ظالموں نے اپنی کتاب مقدس میں ثبت کر دیے ہیں تاکہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے رہیں اور اپنی قوم کے ان دو بزرگ ترین انسانوں کی تذلیل کرتے رہیں جو حضرت موسیٰ کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔ قرآن مجید کے مفسرین میں سے ایک گروہ نے تو ان افسانوں کو قریب قریب جوں کا توں قبول کر لیا ہے جو بنی اسرائیل کے ذریعہ سے ان تک پہنچے ہیں ۔ اسرائیلی روایات کا صرف اتنا حصہ انہوں نے ساقط کیا ہے جس میں حضرت داؤد پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور عورت کے حاملہ ہو جانے کا ذکر تھا ۔ باقی سارا قصہ ان کی نقل کردہ روایات میں اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح وہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا ۔ دوسرے گروہ نے سرے سے اس واقعہ ہی کا انکار کر دیا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا تھا جو دنبیوں والے مقدمہ سے کوئی مماثلت رکھتا ہو ۔ اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے اس قصے کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں ، جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور خود قرآن کے سیاق و سباق سے بھی وہ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں ۔ لیکن مفسرین ہی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک بات تک پہنچا ہے اور قرآن کے واضح اشارات سے قصے کی اصل حقیقت پا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں : مسروق اور سعید بن جبیر ، دونوں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ حضرت داؤد نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا کہ اس عورت کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اپنی بیوی کو میرے لیے چھوڑ دے ۔ ( ابن جریر ) علامہ زمخشری اپنی تفسیر کشا ف میں لکھتے ہیں کہ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شخص سے صرف یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ ان کے لیے اپنی بیوی کو چھوڑ دے ۔ علامہ ابوبکر جصاص اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں بلکہ صرف مخطوبہ یا منسوبہ تھی ، حضرت داؤد نے اسی عورت سے نکاح کا پیغام دے دیا ، اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے مومن بھائی کے پیغام پر پیغام دیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں پہلے سے کئی بیویاں موجود تھیں ( احکام القرآن ) ۔ بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔ لیکن یہ بات قرآن کے بیان سے پوری مطابقت نہیں رکھتی ۔ قرآن مجید میں مقدمہ پیش کرنے والے کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ لِیْ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا ۔ میرے پاس بس ایک ہی دنبی ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالہ کر دے ۔ یہی بات حضرت داؤد نے بھی اپنے فیصلہ میں ارشاد فرمائی کہ قَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ ۔ اس نے تیری دنبی مانگنے میں تجھ پر ظلم کیا ۔ یہ تمثیل حضرت داؤد اور اور یاہ کے معاملہ پر اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی ہے جبکہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو ۔ پیغام پر پیغام دینے کا معاملہ ہوتا تو پھر تمثیل یوں ہوتی کہ ایک دنبی لینا چاہتا تھا اور اس نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں اصل واقعہ بس یہی ہے کہ حضرت داؤد نے اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص سے کہا کہ میرے لیے اپنی بیوی چھوڑ دے ، اور سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا ــــــ قرآن میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ شخص ان کے اس مطالبہ پر اپنی بیوی سے دست بردار ہو گیا اور حضرت داؤد نے اس عورت سے اس کے بعد شادی بھی کر لی اور حضرت سلیمان علیہ السلام اسی بطن سے پیدا ہوئے ــــــ جس بات پر عتاب ہوا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے ایک عورت کے شوہر سے یہ چاہا کہ وہ ان کی خاطر اسے چھوڑ دے ــــــــ یہ فعل خواہ فی الجملہ جائز ہی ہو مگر منصب نبوت سے بعید تھا ، اسی لیے ان پر عتاب بھی ہوا اور ان کو نصیحت بھی کی گئی ۔ یہی تفسیر اس سیاق و سباق سے بھی مناسبت رکھتی ہے جس میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں اس مقام پر یہ قصہ دو اغراض کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان پر صبر کرو ، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو ۔ یعنی تمہیں تو ساحر اور کذاب ہی کہا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے بندے داؤد پر تو ظالموں نے زنا اور سازشی قتل تک کے الزامات لگا دیے ، لہٰذا ان لوگوں سے جو کچھ بھی تم کو سننا پڑے اسے برداشت کرتے رہو ۔ دوسری غرض کفار کو یہ بتانا ہے کہ تم لوگ ہر محاسبے سے بے خوف ہو کر دنیا میں طرح طرح کی زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہو ، لیکن جس خدا کی خدائی میں تم یہ حرکتیں کر رہے ہو وہ کسی کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا ، حتیٰ کہ جو بندے اس کے نہایت محبوب و مقرب ہوتے ہیں ، وہ بھی اگر ایک ذرا سی لغزش کے مرتکب ہو جائیں تو خداوند عالم ان سے سخت مواخذہ کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو ایسی اور ایسی خوبیوں کا مالک تھا ، مگر جب اس سے ایک بے جا بات سرزد ہو گئی تو دیکھو کہ ہم نے اسے کس طرح سرزنش کی ۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی اور باقی رہ جاتی ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔ تمثیل میں مقدمہ پیش کرنے والے نے یہ جو کہا ہے کہ اس شخص کے پاس 99 دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے جسے یہ مانگ رہا ہے ، اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید حضرت داؤد کے پاس 99 بیویاں تھیں اور وہ ایک عورت حاصل کر کے 100 کا عدد پورا کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن دراصل تمثیل کے ہر ہر جز کا حضرت داؤد اور اور یاہ حتّی کے معاملے لفظ بہ لفظ چسپاں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ عام محاورے میں دس ، بیس ، پچاس وغیرہ اعداد کا ذکر صرف کثرت کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ ٹھیک تعداد بیان کرنے کے لیے ۔ ہم جب کسی سے کہتے ہیں کہ دس مرتبہ تم سے فلاں بات کہہ دی تو اس کا مطلب یہ نہی ہوتا کہ دس بار گن کر وہ بات کہی گئی ہے ، مطلب یہ ہوتا ہے بارہا وہ بات کہی جاچکی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔ تمثیلی مقدمہ میں وہ شخص حضرت داؤد کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس متعدد بیویاں ہیں ، اور پھر بھی آپ دوسرے شخص کی بیوی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی بات مفسر نیسابوری نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے نقل کی ہے کہ لم یکن لداؤد تسع وتسعون امرأۃ وانما ھٰذا مثل ، حضرت داؤد کی 99 بیویاں نہ تھیں بلکہ یہ صرف ایک تمثیل ہے ۔ ( اس قصے پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی کتاب تفہیمات حصہ دوم میں کی ہے ۔ جو اصحاب ہماری بیان کردہ تاویل کی ترجیح کے مفصل دلائل معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب کے صفحات 29 تا 44 ملاحظہ فرمائیں ۔ )
صاحب اختیار لوگوں کے لئے انصاف کا حکم ۔ اس آیت میں بادشاہ اور ذی اختیار لوگوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کریں ورنہ اللہ کی راہ سے بھٹک جائیں گے اور جو بھٹک کر اپنے حساب کے دن کو بھول جائے وہ سخت عذابوں میں مبتلا ہو گا ۔ حضرت ابو زرعہ رحمتہ اللہ علیہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ کیا خلیفہ وقت سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب لیا جائے گا آپ نے فرمایا سچ بتا دوں خلیفہ نے کہا ضرور سچ ہی بتاؤ اور آپ کو ہر طرح امن ہے ۔ فرمایا اے امیر المومنین اللہ کے نزدیک آپ سے بہت بڑا درجہ حضرت داؤد علیہ السلام کا تھا انہیں خلافت کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی دے رکھی تھی لیکن اس کے باوجود کتاب اللہ ان سے کہتی ہے ( يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ 26؀ۧ ) 38-ص:26 ) عکرمہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے یوم الحساب کو سخت عذاب ہیں اس کے بھول جانے کے باعث سدی کہتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے یوم الحساب کے لئے اعمال جمع نہیں کئے ۔ آیت کے لفظوں سے اسی قول کو زیادہ مناسبت ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔