Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا بَاطِلًا ‌ؕ ذٰ لِكَ ظَنُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ۚ فَوَيۡلٌ لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنَ النَّارِؕ‏ ﴿27﴾
اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی ۔
و ما خلقنا السماء و الارض و ما بينهما باطلا ذلك ظن الذين كفروا فويل للذين كفروا من النار
And We did not create the heaven and the earth and that between them aimlessly. That is the assumption of those who disbelieve, so woe to those who disbelieve from the Fire.
Aur hum ney aasman-o-zamin aur inn kay darmiyan ki cheezon ko na-haq peda nahi kiya yeh guman to kafiron ka hai so kafiron kay liye kharabi hai aag ki.
اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے د رمیان جو چیزیں ہیں ان کو فضول ہی پیدا نہیں کردیا ۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ہے ، چنانچہ ان کافروں کے لیے دوزخ کی شکل میں بڑی تباہی ہے ۔
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے ، یہ کافروں کا گمان ہے ( ف٤۳ ) تو کافروں کی خرابی ہے آگ سے ،
ہم نے اس آسمان اور زمین کو ، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کر دیا ہے 29 ۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے ، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے ۔
اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کائنات دونوں کے درمیان ہے اسے بے مقصد و بے مصلحت نہیں بنایا ۔ یہ ( بے مقصد یعنی اتفاقیہ تخلیق ) کافر لوگوں کا خیال و نظریہ ہے ۔ سو کافر لوگوں کے لئے آتشِ دوزخ کی ہلاکت ہے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :29 یعنی محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کر دیا ہے کہ اس میں کوئی حکمت نہ ہو ، کوئی غرض اور مقصد نہ ہو ، کوئی عدل اور انصاف نہ ہو ، اور کسی اچھے یا برے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو ۔ یہ ارشاد پچھلی تقریر کا ماحصل بھی ہے اور آگے کے مضمون کی تمہید بھی ۔ پچھلی تقریر کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود یہ حقیقت سامعین سے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان یہاں شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا گیا ہے ، نہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے کہ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی باز پرس نہ ہو ۔ آگے کے مضمون کی تمہید کے طور پر اس فقرے سے کلام کا آغاز کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جو شخص جزا و سزا کا قائل نہیں ہے اور اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھا رہے کہ نیک و بد سب آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں گے ، کسی سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا ، نہ کسی کو بھلائی یا برائی کا کوئی بدلہ ملے گا ، وہ دراصل دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ خالق کائنات نے دنیا بنا کر اور اس میں انسان کو پیدا کر کے ایک فعل عبث کا ارتکاب کیا ہے ۔ یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ( المومنون:115 ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کر دیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے جانے والے نہیں ہو؟ وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o مَا خَلَقْنٰھُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُھُمْ اَجْمَعِیْنَo ( الدُّخان: 38 ۔ 40 ) ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور کائنات کو جو ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ ہم نے ان کو بر حق پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ درحقیقت فیصلے کا دن ان سب کے لیے حاضری کا وقت مقرر ہے ۔
ارشاد ہے کہ مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں یہ سب عبادت خالق کے لئے پیدا کی گئی ہے پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ ماننے والے کی سربلندی کی جائے اور نہ ماننے والوں کو سخت سزا دی جائے ۔ کافروں کا خیال ہے کہ ہم نے انہیں یونہی پیدا کر دیا ہے؟ اور آخرت اور دوسری زندگی کوئی چیز نہیں یہ غلط ہے ۔ ان کافروں کو قیامت کے دن بڑی خرابی ہو گی کیونکہ اس آگ میں انہیں جلنا پڑے گا جو ان کے لئے اللہ کے فرشتوں نے بڑھکا رکھی ہے ۔ یہ ناممکن ہے اور ان ہونی بات ہے کہ مومن و مفسد کو اور پرہیزگار اور بدکار کو ایک جیسا کر دیں ۔ اگر قیامت آنے والی ہی نہ ہو تو یہ دونوں انجام کے لحاظ سے یکساں ہی رہے ۔ حالانکہ یہ خلاف انصاف ہے قیامت ضرور آئے گی نیک کار جنت میں اور گنہگار جہنم میں جائیں گے ۔ پس عقلی اقتضا بھی دار آخرت کے ثبوت کو ہی چاہتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ظالم پاپی اللہ کی درگاہ سے راندہ ہوا دنیا میں خوش وقت ہے مال اولاد فراغت تندرستی سب کچھ اس کے پاس ہے اور ایک مومن متقی پاک دامن ایک ایک پیسے سے تنگ ایک ایک راحت سے دور رہے تو حکمت علیم و حکیم و عادل کا اقتضاء یہ تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ اس نمک حرام سے اس کی نمک حرامی کا بدلہ لیا جائے اور اس صابر و شاکر فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اس جہان کے بعد ایک جہاں یقینا ہے ۔ چونکہ یہ پاک تعلیم قرآن سے ہی حاصل ہوئی ہے اور اس نیکی کا رہبر یہی ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ مبارک کتاب ہم نے تیری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور ذی عقل لوگ اس سے نصیحت حاصل کر سکیں ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جس نے قرآن کے الفاظ حفظ کر لئے اور قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے قرآن میں تدبر و غور بھی نہیں کیا لوگ کہتے ہیں ہم نے پورا قرآن پڑھ لیا لیکن قرآن کی ایک نصیحت یا قرآن کے ایک حکم کا نمونہ میں نظر نہیں آتا ایسا نہ چاہئے ۔ اصل غور و خوض اور نصیحت و عبرت عمل ہے ۔