Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَوَهَبۡنَا لِدَاوٗدَ سُلَيۡمٰنَ‌ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ‌ ؕ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ ؕ‏ ﴿30﴾
اور ہم نے داؤد کو سلیمان ( نامی فرزند ) عطا فرمایا ، جو بڑا اچھا بندہ تھا اور بےحد رجوع کرنے والا تھا ۔
و وهبنا لداود سليمن نعم العبد انه اواب
And to David We gave Solomon. An excellent servant, indeed he was one repeatedly turning back [to Allah ].
Aur hum ney dawwod ko suleman ( naami farzand ) ata farmaya jo bara acha bandah tha aur beyhad rujoo kerney wala tha.
اور ہم نے داؤد کو سلیمان ( جیسا بیٹا ) عطا کیا ، وہ بہترین بندے تھے ، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے ۔
اور ہم نے داؤد کو ( ف٤٦ ) سلیمان عطا فرمایا ، کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ( ف٤۷ )
اور داؤد کو ہم نے سلیمان ( علیہ السلام ) ( جیسا بیٹا ) عطا کیا 32 ، بہترین بندہ ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا ۔
اور ہم نے داؤد ( علیہ السلام ) کو ( فرزند ) سلیمان ( علیہ السلام ) بخشا ، وہ کیا خوب بندہ تھا ، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا ہے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :32 حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول ، ص 97 ۔ جلد دوم ، ص ، 597 ۔ 598 ۔ جلد سوم ، ص 173 تا 178 ۔ 560 تا 582 ۔ سورہ سبا ، آیات 12 ۔ 14 ۔
حضرت سلیمان حضرت داؤد کے وارث ۔ اللہ تعالیٰ نے جوا یک بڑی نعمت حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ ان کی نبوت کا وارث ان کے لڑکے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بنا دیا ۔ اسی لئے صرف حضرت سلیمان کا ذکر کیا ورنہ ان کے اور بچے بھی تھے ۔ ایک سو عورتیں آپ کی لونڈیوں کے علاوہ تھیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ 16؀ ) 27- النمل:16 ) یعنی حضرت داود کے وارث حضرت سلیمان ہوئے یعنی نبوت آپ کے بعد انہیں ملی ۔ یہ بھی بڑے اچھے بندے تھے یعنی خوب عبادت گذار تھے اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے ۔ مکحول کہتے ہیں کہ جناب داؤد نبی نے ایک مرتبہ آپ سے چند سوالات کئے اور ان کے معقول جوابات پا کر فرمایا کہ آپ نبی اللہ ہیں ۔ پوچھا کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ کی طرف سکینت اور ایمان پوچھا کہ سب سے زیادہ میٹھی چیز کیا ہے؟ جواب ملا اللہ کی رحمت پوچھا سب سے زیادہ ٹھنڈک والی چیز کیا ہے؟ جواب دیا اللہ کا لوگوں سے درگذر کرنا اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دینا ( ابن ابی حاتم ) حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے گھوڑے پیش کئے گئے ۔ یہ بہت تیز رفتار تھے جو تین ٹانگوں پر کھڑے رہتے تھے اور ایک پیر یونہی سا زمین پر ٹکتا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پردار گھوڑے تھے تعداد میں بیس تھے ۔ ابراہیم تمیمی نے گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار بتلائی ہے ۔ واللہ اعلم ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک یا خیبر کے سفر سے واپس آئے تھے گھر میں تشریف فرما تھے جب تیز ہوا کے جھونکے سے گھر کے کونے کا پردہ ہٹ گیا وہاں حضرت عائشہ کی کھیلنے کی گڑیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بھی پڑ گئی ۔ دریافت کیا یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں آپ نے دیکھا کہ بیچ میں ایک گھوڑا سا بنا ہوا ہے جس کے دو پر بھی کپڑے کے لگے ہوئے ہیں ۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گھوڑا ہے فرمایا اور یہ اس کے اوپر دونوں طرف کپڑے کے کیا بنے ہوئے ہیں؟ کہا یہ دونوں اس کے پر ہیں ۔ فرمایا اچھا گھوڑا اور اس کے پر بھی؟ صدیقہ نے عرض کیا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے پردار گھوڑے تھے ، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے آخری دانت دکھائی دینے لگے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے دیکھنے بھالنے میں اس قدر مشغول ہوگئے کہ عصر کی نماز کا خیال ہی نہ رہا بالکل بھول گئے ۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام جنگ خندق والے دن لڑائی کی مشغولیت کی وجہ سے عصر کی نماز نہ پڑھ سکے تھے اور مغرب کے بعد ادا کی ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سورج ڈوبنے کے بد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا ۔ آپ نے فرمایا میں بھی اب تک ادا نہیں کر سکا ۔ چنانچہ ہم بطحان میں گئے وہاں وضو کیا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور پھر مغرب پڑھی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دین سلیمان میں جنگی صالح کی وجہ سے تاخیر نماز جائز ہو اور یہ جنگی گھوڑے تھے جنہیں اسی مقصد سے رکھا تھا ۔ چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا بھی ہے کہ صلوۃ خوف کے جاری ہونے سے پہلے یہی حال تھا ۔ بعض کہتے ہیں جب تلواریں تنی ہوئی ہوں لشکر بھڑ گئے ہوں اور نماز کے لئے رکوع و سجود کا امکان ہی نہ ہو تب یہ حکم ہے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیستر کی فتح کے بعد موقعہ پر کیا تھا لیکن ہمارا پہلا قول ہی ٹھیک ہے اس لئے کہ اس کے بعد ہی حضرت سلیمان کا ان گھوڑوں کو دوبارہ طلب کرنا وغیرہ بیان ہوا ہے ۔ انہیں واپس منگوا کر ان کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا میرے رب کی عبادت سے مجھے اس چیز نے غافل کر دیا میں ایسی چیز ہی نہیں رکھنے کا ۔ چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں اور ان کی گردنیں ماری گئیں ۔ لیکن حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آپ نے گھوڑوں کے پیشانی کے بالوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرا ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں کہ بلا وجہ جانوروں کو ایذاء پہنچانی ممنوع ہے ان جانوروں کا کوئی قصور نہ تھا جو انہیں کٹوا دیتے لیکن میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات ان کی شرع میں جائز ہو خصوصاً ایسے وقت جبکہ وہ یاد اللہ میں حارج ہوئے اور وقت نماز نکل گیا تو دراصل یہ غصہ بھی اللہ کے لئے تھا ۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان گھوڑوں سے بھی تیز اور ہلکی چیز اللہ نے اپنے نبی کو عطا فرمائی یعنی ہوا ان کے تابع کر دی ۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو دھما اکثر حج کیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں ہماری ایک بدوی سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہت کچھ دینی تعلیم دی اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر تو جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائیگا ۔