سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :12
ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ بے چارہ تو سیدھا آدمی تھا ، کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بَھروں پر چڑھا لیا ، وہ در پر وہ قرآن کی آیتیں گھڑ گھڑ کر اسے پڑھا دیتے ہیں ، یہ آ کر عام لوگوں کے سامنے انہیں پیش کر دیتا ہے ، وہ مزے سے بیٹھے رہتے ہیں ، اور یہ گالیاں اور پتھر کھاتا ہے ۔ اس طرح ایک چلتا ہوا فقرہ کہہ کر وہ ان ساری دلیلوں اور نصیحتوں اور سنجیدہ تعلیمات کو اڑا دیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برسوں سے ان کے سامنے پیش کر کر کے تھکے جا رہے تھے ۔ وہ نہ ان معقول باتوں پر کوئی توجہ کرتے تھے جو قرآن مجید میں بیان کی جا رہی تھیں ۔ نہ یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص یہ باتیں پیش کر رہا ہے وہ کس پائے کا آدمی ہے ۔ اور نہ یہ الزام رکھتے وقت ہی وہ کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے تھے کہ ہم یہ کیا بکواس کر رہے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص در پردہ بیٹھ کر سکھانے پڑھانے والا ہوتا تو وہ حضرت خدیجہ اور ابوبکر اور علی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اور دوسرے ابتدائی مسلمانوں سے آخر کیسے چھپ جاتا جن سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب اور ہر وقت کا ساتھی کوئی نہ تھا ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی لوگ سب سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ اور عقیدت مند تھے ، حالانکہ درپردہ کسی دوسرے شخص کے سکھانے پڑھانے سے نبوت کا کاروبار چلایا گیا ہوتا تو یہی لوگ آپ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ ۱۰۷ ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۱۲ ) ۔