Surah

Information

Surah # 44 | Verses: 59 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 64 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
لَا يَذُوۡقُوۡنَ فِيۡهَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَةَ الۡاُوۡلٰى‌ ۚ وَوَقٰٮهُمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِۙ‏ ﴿56﴾
وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت ( جو وہ مر چکے ) انہیں اللہ تعالٰی نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا ۔
لا يذوقون فيها الموت الا الموتة الاولى و وقىهم عذاب الجحيم
They will not taste death therein except the first death, and He will have protected them from the punishment of Hellfire
Wahan woh mot chakhney kay nahi haan pehli mot ( jo woh marr chukay ) enhen Allah Taalaa ney dozakh ki saza say bacha diya.
جو موت ان کو پہلی آچکی تھی ، اس کے علاوہ وہاں وہ کسی اور موت کا مزہ نہیں چکھیں گے ، اور اللہ انہیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھے گا ۔
اس میں پہلی موت کے سوا ( ف٦۳ ) پھر موت نہ چکھیں گے اور اللہ نے انہیں آگ کے عذاب سے بچالیا ، ( ف٦٤ )
وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے ، بس دنیا میں جو موت آچکی سو آچکی ۔ اور اللہ اپنے فضل سے ان کو جہنم کے عذاب سے بچا دے گا 44
اس ( جنت ) میں موت کا مَزہ نہیں چکھیں گے سوائے ( اس ) پہلی موت کے ( جو گزر چکی ہوگی ) اور اللہ انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :44 اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: ایک یہ کہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم سے بچائے جانے کا ذکر خاص طور پر الگ فرمایا گیا ہے ، حالانکہ کسی شخص کا جنت میں پہنچ جانا آپ اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ جہنم میں جانےسے بچ گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرمانبرداری کے انعام کی قدر انسان کو پوری طرح اسی وقت محسوس ہوسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ بات بھی ہو کہ نافرمانی کرنے والے کہاں پہنچے ہیں ، اور وہ کس برے انجام سے بچ گیا ہے ۔ دوسری قابل توجہ بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے ۔ اس سے انسان کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو ، اگرچہ آدمی کو انعام اس کے اپنے حسن عمل ہی پر ملے گا ، لیکن اول تو حسن عمل ہی کی توفیق آدمی کو اللہ کے فضل کے بغیر کیسے نصیب ہوسکتی ہے ۔ پھر جو بہتر سے بہتر عمل بھی آدمی سے بن آ سکتا ہے وہ کبھی کامل و اکمل نہیں ہوسکتا جس کے متعلق دعوے سے یہ کہا جا سکے کہ اس میں نقص کا کوئی پہلو نہیں ہے ۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ بندے کی کمزوریوں اور اس کے عمل کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خدمات کو قبول فرمالے اور اسے انعام سے سرفراز فرمائے ۔ ورنہ باریک بینی کے ساتھ حساب کرنے پر وہ اتر آئے تو کس کی یہ ہمت ہے کہ اپنی قوت بازو سے جنت جیت لینے کا دعویٰ کرسکے ۔ یہی بات ہے جو حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہے ۔ آپ نے فرمایا: اعملوا و سددوا وقاربوا و اعلموا انّ احداً لن یُّدخلہُ عملہ الجنۃ ۔ عمل کرو اور اپنی حد استطاعت تک زیادہ سے زیادہ ٹھیک کام کرنے کی کوشش کرو ، مگر یہ جان لو کہ کسی شخص کو محض اس کا عمل ہی جنت میں نہ داخل کر دے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا آپ کا عمل بھی ؟ فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یتغمّدنی اللہ بِرَحْمَتِہ ، ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے زور سے جنت میں نہ پہنچ جاؤں گا الّا یہ کہ مجھے میرا رب اپنی رحمت سے ڈھانک لے ۔