Surah

Information

Surah # 51 | Verses: 60 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 67 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَفِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ‌ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿21﴾
اور خود تمہاری ذات میں بھی ، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔
و في انفسكم افلا تبصرون
And in yourselves. Then will you not see?
Aur khud tumhari zaat mein bhi to kiya tum dekhtay ho.
اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی ۔ کیا پھر بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟
اور خود تم میں ( ف۲۲ ) تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں ،
اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں19 ۔ کیا تم کو سوجھتا نہیں؟
اور خود تمہارے نفوس میں ( بھی ہیں ) ، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :19 یعنی باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں ، خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اسی حقیقت پر گواہی دینے والی بے شمار نشانیاں مل جائیں گی ۔ کس طرح ایک خورد بینی کیڑے اور ایسے ہی ایک خورد بینی انڈے کو ملا کر ماں کے ایک گوشۂ جسم میں تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی ۔ کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کر کے بتدریج بڑھایا گیا ۔ کس طرح تمہیں ایک بے نظیر ساخت کا جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا ۔ کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خود کار مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روز پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے ، غذا ہضم کرنے ، خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے ، فضلات خارج کرنے ، تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزاء تیار کرنے ، اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے ، حتیٰ کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لیے سلا دینے تک کا کام خود بخود کیے جاتی ہے بغیر اس کے کہ تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو ۔ ایک عجیب دماغ تمہارے کا سۂ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کی پیچیدہ تہوں میں عقل ، فکر ، تخیُّل ، شعور ، تمیز ، ارادہ ، حافظہ ، خواہش ، احساسات و جذبات ، میلانات و رجحانات ، اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے ۔ بہت سے ذرائع علم تم کو دیے گئے ہیں جو آنکھ ، ناک ، کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں ۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ سے تم اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکتے ہو ۔ اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری اَنا کو ایک رئیس بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں قائم کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات ، محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے ، کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا قبول کرنی ہے ، کس چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا ۔ یہ ہستی بنا کر جب تمہیں دنیا میں لایا گیا تو ذرا دیکھو کہ یہاں آتے ہی کتنا سرو سامان تمہاری پرورش ، نشو ونما ، اور ترقی و تکمیل ذات کے لیے تیار تھا جس کی بدولت تم زندگی کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اپنے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل ہو گئے ۔ ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے زمین میں تم کو ذرائع دیے گئے ۔ مواقع فراہم کیے گئے ۔ بہت سی چیزوں پر تم کو تصرف کی طاقت دی گئی ۔ بہت سے انسانوں کے ساتھ تم نے طرح طرح کے معاملات کیے ۔ تمہارے سامنے کفر و ایمان ، فسق و اطاعت ، ظلم و انصاف ، نیکی و بدی ، حق و باطل کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں ، اور ان راہوں میں سے ہر ایک کی طرف بلانے والے اور ہر ایک کی طرف لے جانے والے اسباب موجود تھے ۔ تم میں سے جس نے جس راہ کو بھی انتخاب کیا اپنی ذمہ داری پر کیا ، کیونکہ فیصلہ و انتخاب کی طاقت اس کے اندر ودیعت تھی ۔ ہر ایک کے اپنے ہی انتخاب کے مطابق اس کی نیتوں اور ارادوں کو عمل میں لانے کے جو مواقع اس کو حاصل ہوئے ان سے فائدہ اٹھا کر کوئی نیک بنا اور کوئی بد ، کسی نے ایمان کی راہ اختیار کی اور کسی نے کفر و شرک یا دہریت کی راہ لی ، کسی نے اپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکا اور کوئی بندگی نفس میں سب کچھ کر گزرا ، کسی نے ظلم کیا اور کسی نے ظلم سہا ، کسی نے حقوق ادا کیے اور کسی نے حقوق مارے ، کسی نے مرتے دم تک دنیا میں بھلائی کی اور کوئی زندگی کی آخری ساعت تک برائیاں کرتا رہا ، کسی نے حق کا بول بالا کرنے کے لیے جان لڑائی ، اور کوئی باطل کو سر بلند کرنے کے لیے اہل حق پر دست درازیاں کرتا رہا ۔ اب کیا کوئی شخص جس کی ھیے کی آنکھیں بالکل ہی پھوٹ نہ گئی ہوں ، یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقاً وجود میں آ گئی ہے؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما نہیں ہے؟ زمین پر اس کے ہاتھوں یہ سارے ہنگامے جو برپا ہو رہے ہیں سب بے مقصد ہیں اور بے نتیجہ ہی ختم ہو جانے والے ہیں؟ کسی بھلائی کا کوئی ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی باز پرس نہیں؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہہ سکتا ہے ، یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہے کہ تخلیق انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے ۔ مگر ایک غیر متعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان کو جس طرح ، جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو حیثیت اس کو یہاں دی گئی ہے وہ یقیناً ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے ، اور جس خدا کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازماً یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو ، اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خورد بینی خلیے سے شروع کر کے اس مرتبے تک پہنچا چکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لا سکے گا ۔