Surah

Information

Surah # 51 | Verses: 60 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 67 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
هَلۡ اَتٰٮكَ حَدِيۡثُ ضَيۡفِ اِبۡرٰهِيۡمَ الۡمُكۡرَمِيۡنَ‌ۘ‏ ﴿24﴾
کیا تجھے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے ؟
هل اتىك حديث ضيف ابرهيم المكرمين
Has there reached you the story of the honored guests of Abraham? -
Kiya tujhay ibrahim ( alh-e-salam ) kay moazziz mehmanon ki khabar bhi phonchi hai?
۔ ( اے پیغمبر ) کیا ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ تمہیں پہنچا ہے ؟ ( ١١ )
اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ( ف۲۵ )
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم 21 ، ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے 22؟
کیا آپ کے پاس ابراہیم ( علیہ السلام ) کے معزّز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :21 اب یہاں سے رکوع دوم کے اختتام تک انبیاء علیہم السلام اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے در پے مختصر اشارات کیے گئے ہیں جن سے دو باتیں ذہن نشین کرانی مقصود ہیں ۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ میں خدا کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکوکاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں ۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی ( Physical Law ) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون ( Moral Law ) اس کے ساتھ کار فرما ہے ۔ اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو جسم طبیعی میں رہ کر اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جائے ، تو یہ بات بجائے خود اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک وقت ایسا ضرور آنا چاہیے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہو جانے کے بعد خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح برآمد ہوں ، کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہو سکتے ۔ دوسری بات جو ان تاریخی اشارات سے ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے بھی انبیاء علیہم السلام کی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کا پورا رویہ توحید ، رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم کیا وہ آخر کار ہلاکت کی مستحق ہو کر رہیں ۔ تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعہ دیا گیا ، اور اس کے مطابق انسانی اعمال کی باز پرس جو آخرت میں ہوئی ہے ، سراسر مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :22 یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پر پہلے گزر چکا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، ص 353 تا 355 ، 509 تا 511 ۔ جلد سوم ، ص 696 ۔
مہمان اور میزبان ؟ یہ واقعہ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی گذر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀ ) 4- النسآء:86 ) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی ۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لئے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں ۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لئے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور انکے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ ) 11-ھود:70 ) ، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہوگئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لئے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہوگئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہوگئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہو گا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔ الحمد اللہ ! الحمد اللہ ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے تفسیر محمدی کا چھبیسواں پارہ حم بھی ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے کلام پاک کا صحیح اور حقیقی مطلب سمجھائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اے پروردگار علم جس طرح تو نے مجھ پر اپنا یہ فضل کیا ہے کہ اپنے کلام کی خدمت مجھ سے لی اسی طرح یہ بھی فضل کر کہ اسے قبول فرما اور میرے لئے باقیات صالحات میں اسے کر لے ۔ اور اس تفسیر کو میری تقصیر کی معافی کا سبب بنا دے اپنے تمام بندوں کو اس سے فائدہ پہنچا اور سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما ۔ آمین ۔