Surah

Information

Surah # 51 | Verses: 60 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 67 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَمِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَيۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿49﴾
اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔
و من كل شيء خلقنا زوجين لعلكم تذكرون
And of all things We created two mates; perhaps you will remember.
Aur her cheez ko hum ney jora jora peda kiya hai takay tum naseehat hasil kero.
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے ہیں ، ( ١٧ ) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔
اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑ بنائے ( ف۵۳ ) کہ تم دھیان کرو ( ف۵٤ )
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں46 شاید کہ تم اس سے سبق لو 47 ۔
اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم دھیان کرو اور سمجھو
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :46 یعنی دنیا کی تمام اشیاء تزویج کے اصول پر بنائی گئی ہیں ۔ یہ سارا کارخانہ عالم اس قاعدے پر چل رہا ہے کہ بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے جوڑ لگتا ہے اور پھر ان کا جوڑ لگنے ہی سے طرح طرح کی ترکیبات وجود میں آتی ہیں ۔ یہاں کوئی شے بھی ایسی منفرد نہیں ہے کہ دوسری کوئی شے اس کا جوڑ نہ ہو ، بلکہ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، یٰس ، حاشیہ 31 ۔ الزخرف ، حاشیہ 12 ) ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :47 مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات کا تزویج کے اصول پر بنایا جانا ، اور دنیا کی تمام اشیاء کا زَوج زَوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آخرت کے وجوب پر صریح شہادت دے رہی ہے ۔ اگر تم غور کرو تو اس سے خود تمہاری عقل یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز کا ایک جوڑا ہے ، اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی ، تو دنیا کی یہ زندی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے؟ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے ۔ وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے ۔ آگے مضمون کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ یہاں تک ساری بحث آخرت کے موضوع پر چلی آ رہی ہے ، لیکن اسی بحث اور انہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے ۔ بارش کا انتظام ، زمین کی ساخت ، آسمان کی تخلیق ، انسان کا اپنا وجود ، کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کار فرمائی ، یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت بھی دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں ، بلکہ ایک خدائے حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے ۔ اس لیے آگے انہی دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت پیش کی جا رہی ہے ۔ علاوہ بریں آخرت کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا سے بغاوت کا رویہ چھوڑ کر اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے ۔ وہ خدا سے اسی وقت تک پھرا رہتا ہے جب تک وہ اس غفلت میں مبتلا رہتا ہے کہ میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال کا کوئی حساب مجھے کسی کو دینا نہیں ہے ۔ یہ غلط فہمی جس وقت بھی رفع ہو جائے ، اس کے ساتھ ہی فوراً آدمی کے ضمیر میں یہ احساس ابھر آتا ہے کہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر وہ بڑی بھاری غلطی کر رہا تھا اور یہ احساس اسے خدا کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر آخرت کے دلائل ختم کرتے ہی معاً بعد یہ فرمایا گیا پس دوڑو اللہ کی طرف ۔