Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَاتَّبَعَتۡهُمۡ ذُرِّيَّتُهُمۡ بِاِيۡمَانٍ اَلۡحَـقۡنَا بِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَمَاۤ اَلَـتۡنٰهُمۡ مِّنۡ عَمَلِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ‌ؕ كُلُّ امۡرِیءٍۢ بِمَا كَسَبَ رَهِيۡنٌ‏ ﴿21﴾
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے ۔
و الذين امنوا و اتبعتهم ذريتهم بايمان الحقنا بهم ذريتهم و ما التنهم من عملهم من شيء كل امر بما كسب رهين
And those who believed and whose descendants followed them in faith - We will join with them their descendants, and We will not deprive them of anything of their deeds. Every person, for what he earned, is retained.
Aur jo log eman laye aur unki olad ney bhi eman mein unki perwi ki hum unki olad ko unntak phoncha dengey aur unkay amal say hum kuch kum na keren gey.her shaks apney aemaal ka girwi hai.
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے تو ان کی اولاد کو ہم انہی کے ساتھ شامل کردیں گے ، اور ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے ۔ ( ٣ ) ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے ۔ ( ٤ )
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی ( ف۲۰ ) اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی ( ف۲۱ ) سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں ( ف۲۲ )
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ( جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں 15 گے ۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے 16 ۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی ، ہم اُن کی اولاد کو ( بھی ) ( درجاتِ جنت میں ) اُن کے ساتھ ملا دیں گے ( خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا ) اور ہم اُن ( صالح آباء ) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے ، ( علاوہ اِس کے ) ہر شخص اپنے ہی عمل ( کی جزا و سزا ) میں گرفتار ہوگا
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :15 یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت 23 ، اور سورہ مومن آیت 8 میں بھی گزر چکا ہے ، مگر یہاں ان دونوں مقامات سے بھی زیادہ ایک بڑی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ سورہ رعد والی آیت میں صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ اہل جنت کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے جو جو افراد بھی صالح ہوں گے وہ سب ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔ اور سورہ مومن میں ارشاد ہوا تھا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اور ازواج اور آباء میں سے جو صالح ہوں انہیں بھی جنت میں ان سے ملا دے ۔ یہاں ان دونوں آیتوں سے زائد جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی ہو ، تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو آباء کا ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا ، پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جائے گی ۔ اور یہ ملانا اس نوعیت کا نہ ہو گا جیسے وقتاً فوقتاً کوئی کسی سے جا کر ملاقات کر لیا کرے ، بلکہ اس کے لیے اَلْحَقْنَا بِھِمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے ۔ اس پر مزید یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اولاد سے ملانے کے لیے آباء کا درجہ گھٹا کر انہیں نیچے نہیں اتارا جائے گا ، بلکہ آباء سے ملانے کے لیے اولاد کا درجہ بڑھا کر انہیں اوپر پہنچا دیا جائے گا ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ارشاد اس بالغ اولاد کے بارے میں ہے جس نے سنِ رُشد کو پہنچ کر اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لانے کا فیصلہ کیا ہو اور جو اپنی مرضی سے اپنے صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلی ہو ۔ رہی ایک مومن کی وہ اولاد جو سن رشد کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی ہو تو اس کے معاملہ میں کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسے تو ویسے ہی جنت میں جانا ہے اور اس کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ رکھا جانا ہے ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :16 یہاں رہن کا استعارہ بہت معنی خیز ہے ۔ ایک شخص اگر کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے اس وقت تک فکِّ رہن نہیں ہو سکتا ، اور اگر مدت مقررہ گزر جانے پر بھی وہ فکِّ رہن نہ کرائے تو شئے مرہونہ ضبط ہو جاتی ہے ۔ انسان اور خدا کے درمیان معاملہ کی نوعیت کو یہاں اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ خدا نے انسان کو جو سرو سامان ، جو طاقتیں اور صلاحیتیں اور جو اختیارات دنیا میں عطا کیے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو مالک نے اپنے بندے کو دیا ہے ، اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر بندے کا نفس خدا کے پاس رہن ہے ۔ بندہ اس سرو سامان اور ان قوتوں اور اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ نیکیاں کمائے جن سے یہ قرض ادا ہو سکتا ہو تو وہ شئے مرہونہ ، یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا ، ورنہ اسے ضبط کر لیا جائے گا ۔ پچھلی آیت کے معاً بعد یہ بات اس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مومنین صالحین خواہ بجائے خود کتنے ہی بڑے مرتبے کے لوگ ہوں ، ان کی اولاد کا فکِّ رہن اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ وہ خود اپنے کسب سے اپنے نفس کو چھڑائے ۔ باپ دادا کی کمائی اولاد کو نہیں چھڑا سکتی. البتہ اولاد اگر کسی درجے کے بھی ایمان اور اتباع صالحین سے اپنے آپ کو چھڑا لے جائے تو پھر یہ اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے کہ جنت میں وہ اسکو نیچے کے مرتبوں سے اٹھا کر اونچے مراتب میں باپ دادا کے ساتھ لے جا کر ملا دے ۔ باپ دادا کی نیکیوں کا یہ فائدہ تو اولاد کو مل سکتا ہے ، لیکن اگر وہ اپنے کسب سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ باپ دادا کی خاطر اسے جنت میں پہنچا دیا جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ کم درجے کی نیک اولاد کا بڑے درجے کے نیک آباء سے لے جا کر ملا دیا جانا دراصل اس اولاد کے کسب کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان آباء کے کسب کا نتیجہ ہے ۔ وہ اپنے عمل سے اس فضل کے مستحق ہوں گے کہ ان کے دل خوش کرنے کے لیے ان کی اولاد کو ان سے لا ملایا جائے ۔ اسی وجہ سے اللہ ان کے درجے گھٹا کر انہیں اولاد کے پاس نہیں لے جائے گا بلکہ اولاد کے درجے بڑھا کر ان کے پاس لے جائے گا ، تاکہ ان پر خدا کی نعمتوں کے اتمام میں یہ کسر باقی نہ رہ جائے کہ اپنی اولاد سے دوری ان کے لیے باعث اذیت ہو ۔
صالح اولاد انمول اثاثہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لئے اور انکے لئے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے چھٹ پن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے ۔ حضرت ابن عباس ، شعبی ، سعید بن جبیر ابراہیم قتادہ ابو صالح ربیع بن انس ضحاک بن زید بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خدیجہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ نے فرمایا وہ دونوں جہنم میں ہیں ، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا مائی صاحبہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ وہ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لئے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ۔ صدقہ جاریہ علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعائے خیر کرتی رہے چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ 38؀ۙ ) 74- المدثر:38 ) ، ہر شخص اپنے کئے ہوئے کاموں میں گرفتار ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں جس چیز کو جی چاہے جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بد زبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی ہذیان نہیں بکتے بیہوش نہیں ہوتے سچا سرور اور پوری خوشی حاصل بک جھک سے دور گناہ سے غافل باطل وکذب سے دور غیبت وگناہ سے نفور دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر پیٹ میں درد عقل زائل بکواس بہت بو بری چہرے بےرونق اسی طرح شراب کے بد ذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے یہ رنگ میں سفید پینے میں خوش ذائقہ نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں نہ بک جھک ہو نہ بہکیں نہ بھٹکیں نہ مستی ہو نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے ان کے غلام کمسن نوعمر بچے جو حسن و خوبی میں ایسے ہیں جیسے مروارید ہوں اور وہ بھی ڈبے میں بند رکھے گئے ہوں کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو اور ابھی ابھی تازے تازے نکالے ہوں ان کی آبداری صفائی چمک دمک روپ رنگ کا کیا پوچھنا ؟ لیکن ان غلمان کے حسین چہرے انہیں بھی ماند کر دیتے ہیں اور جگہ یہ مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے آیت ( يَــطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ 17۝ۙ ) 56- الواقعة:17 ) یعنی ہمیشہ نو عمر اور کمسن رہنے والے بچے آبخورے آفتابے اور ایسی شراب صاف کے جام کہ جن کے پینے سے نہ سر میں درد ہو نہ بہکیں اور جس قسم کا میوہ یہ پسند کریں اور جس پرند کا گوشت یہ چاہیں ان کے پاس بار بار لانے کے لئے چاروں طرف کمربستہ چل رہے ہیں اس دور شراب کے وقت آپس میں گھل مل کر طرح طرح کی باتیں کریں گے دنیا کے احوال یاد آئیں گے کہیں گے کہ ہم دنیا میں جب اپنے والوں میں تھے تو اپنے رب کے آج کے دن کے عذاب سے سخت لرزاں و ترساں تھے الحمد اللہ رب نے ہم پر خاص احسان کیا اور ہمارے خوف کی چیز سے ہمیں امن دیا ہم اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہے اس نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور ہمارا قول پورا کر دیا یقینا وہ بہت ہی نیک سلوک اور رحم والا ہے مسند بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی اپنے دوستوں سے ملنا چاہے گا تو ادھر دوست کے دل میں بھی یہی خواہش پیدا ہو گی اس کا تخت اڑے گا اور راستہ میں دونوں مل جائیں گے اپنے اپنے تختوں پر آرام سے بیٹھے ہوئے باتیں کرنے لگیں گے دنیا کے ذکر کو چھیڑیں گے اور کہیں گے کہ فلاں دن فلاں جگہ ہم نے اپنی بخشش کی دعا مانگی تھی اللہ نے اسے قبول فرمایا ۔ اس حدیث کی سند کمزور ہے حضرت مائی عائشہ نے جب اس آیت کی تلاوت کی تو یہ دعا پڑھی ( اللھم من علینا وقنا عذاب السموم انک انت البر الرحیم ) حضرت اعمش راوی حدیث سے پوچھا گیا کہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا ام المومنین نے نماز میں مانگی تھی ؟ جواب دیا ہاں ۔