Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اَمۡ خَلَـقُوا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ‌ۚ بَلْ لَّا يُوۡقِنُوۡنَؕ‏ ﴿36﴾
کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ۔
ام خلقوا السموت و الارض بل لا يوقنون
Or did they create the heavens and the earth? Rather, they are not certain.
Kiya inhon ney hi aasman aur zamin ko peda kiya hai? bulkay yeh yaqeen na kernay walay log hain.
یا کیا آسمان اور زمین انہوں نے پیدا کیے ہیں؟ نہیں ، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے ۔
یا آسمان اور زمین انہوں نے پیدا کیے ( ف٤٤ ) بلکہ انہیں یقین نہیں ( ف٤۵ )
یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے 28 ۔
یا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، ( ایسا نہیں ) بلکہ وہ ( حق بات پر ) یقین ہی نہیں رکھتے
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :28 اس سے پہلے جو سوالات چھیڑے گئے تھے وہ کفار مکہ کو یہ احساس دلانے کے لیے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے رسالت کو جھٹلانے کے لیے جو باتیں وہ بنا رہے ہیں وہ کس قدر غیر معقول ہیں ۔ اب اس آیت میں ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں آخر اس میں وہ بات کیا ہے جس پر تم لوگ اس قدر بگڑ رہے ہو ۔ وہ یہی تو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تمہارا خالق ہے اور اسی کی تم کو بندگی کرنی چاہیے ۔ اس پر تمہارے بگڑنے کی آخر کیا معقول وجہ ہے ؟ کیا تم خود بن گئے ہو ، کسی بنانے والے نے تمہیں نہیں بنایا ؟ یا اپنے بنانے والے تم خود ہو؟ یا یہ وسیع کائنات تمہاری بنائی ہوئی ہے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے اور تم خود مانتے ہو کہ تمہارا خالق بھی اللہ ہی ہے اور اس کائنات کا خلاق بھی وہی ہے ، تو اس شخص پر تمہیں غصہ کیوں آتا ہے جو تم سے کہتا ہے کہ وہی اللہ تمہاری بندگی و پرستش کا مستحق ہے ؟ غصے کے لائق بات یہ ہے یا یہ کہ جو خالق نہیں ہیں ان کی بندگی کی جائے اور جو خالق ہے اس کی بندگی نہ کی جائے؟ تم زبان سے یہ اقرار تو ضرور کرتے ہو کہ اللہ ہی تمہارا اور کائنات کا خالق ہے ، لیکن اگر تمہیں واقعی اس بات کا یقین ہوتا تو اس کی بندگی کی طرف بلانے والے کے پیچھے اس طرح ہاتھ دھو کر نہ پڑ جاتے ۔ یہ ایسا زبردست چبھتا ہوا سوال تھا کہ اس نے مشرکین کے عقیدے کی چولیں ہلا دیں ۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جبیر بن مطعم جنگ بدر کے بعد قریش کے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے مدینہ آئے ۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورہ طور زیر تلاوت تھی ۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ جب حضور اس مقام پر پہنچے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا ۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا ۔