Surah

Information

Surah # 53 | Verses: 62 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 23 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Except 32, from Madina
وَاَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰىۙ‏ ﴿49﴾
اور یہ کہ وہی شعریٰ ( ستارے ) کا رب ہے ۔
و انه هو رب الشعرى
And that it is He who is the Lord of Sirius
Aur yeh kay wohi sheyara ( sitaray ) ka rab hai.
اور یہ کہ وہی ہے جو شعری ستارے کا پروردگار ہے ۔ ( ٢٣ )
اور یہ کہ وہی ستارہ شِعریٰ کا رب ہے ( ف۵٤ )
اور یہ کہ وہی شِعریٰ کا رب ہے 44
اور یہ کہ وہی شِعرٰی ( ستارے ) کا رب ہے ( جس کی دورِ جاہلیت میں پوجا کی جاتی تھی )
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :44 شِعْرٰی آسمان کا روشن ترین تارا ہے جسے مِرْزم الجوزاء ، الکلب الاکبر ، الکلب الجبار ، الشعری العبور وغیرہ ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اس کو Sirius اور Dog Star اورCanis Majoris کہتے ہیں ۔ یہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے ، مگر زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ سال نوری سے بھی زیادہ ہے اس لیے یہ سورج سے چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے ۔ اہل مصر اس کی پرستش کرتے تھے ، کیونکہ اس کے طلوع کے زمانے میں نیل کا فَیضان شروع ہوتا تھا ، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ یہ اسی کے طلوع کا فیضان ہے ۔ جاہلیت میں اہل عرب کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ یہ ستارہ لوگوں کی قسمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر یہ عرب کے معبودوں میں شامل تھا ، اور خاص طور پر قریش کا ہمسایہ قبیلہ خُزَاعَہ اس کی پرستش کے لیے مشہور تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشا کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسمتیں شعریٰ نہیں بناتا بلکہ اس کا رب بناتا ہے ۔
سب کی آخری منزل اللہ تعالیٰ ادراک سے بلند ہے فرمان ہے کہ بازگشت آخر اللہ کی طرف ہے ۔ قیامت کے دن سب کو لوٹ کر اسی کے سامنے پیش ہونا ہے حضرت معاذ نے قبیلہ بنی اود میں خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا اے بنی اود میں اللہ کا پیغمبر کا قاصد بن کر تمہاری طرف آیا ہوں تم یقین کرو کہ تمہارا سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے پھر یا تو جنت میں پہنچائے جاؤ یا جہنم میں دھکیلے جاؤ بغوی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات میں فکر کرنا جائز نہیں ، جیسے اور حدیث میں ہے مخلوق پر غور بھری نظریں ڈالو لیکن ذات خالق میں گہرے نہ اترو ۔ اسے عقل و ادراک فکر و ذہن نہیں پا سکتا ، گو ان لفظوں سے یہ حدیث محفوظ نہیں مگر صحیح حدیث میں یہ بھی مضمون موجود ہے اس میں ہے کہ شیطان کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اسے کس نے پیدا کیا ؟ پھر اسے کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب تم میں سے کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا تو اعوذ پڑھ لے اور اس خیال کو دل سے دور کر دے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے مخلوقات اللہ میں غور و فکر کرو لیکن ذات اللہ میں غور و فکر نہ کرو سنو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جس کے کان کی لو سے لے کر مونڈھے تک تین سو سال کا راستہ ہے او کما قال پھر فرماتا ہے کہ بندوں میں ہنسنے رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کئے ہیں جو بالکل مختلف ہیں وہی موت و حیات کا خالق ہے جیسے فرمایا آیت ( الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ Ą۝ۙ ) 67- الملك:2 ) اس نے موت و حیات کو پیدا کیا اسی نے نطفہ سے ہر جاندار کو جوڑ جوڑ بنایا ، جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى 36؀ۭ ) 75- القيامة:36 ) ، کیا انسان سمجھتا ہے کہ وہ بیکار چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا جو ( رحم میں ) ٹپکایا جاتا ہے ؟ پھر کیا وہ بستہ خون نہ تھا ؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست کیا اور اس سے جوڑے یعنی نرو مادہ بنائے کیا ( ایسی قدرتوں والا ) اللہ اس بات پر قادر نہیں ؟ کہ مردوں کو زندہ کر دے ۔ پھر فرماتا ہے اسی پر دوبارہ زندہ کرنا یعنی جیسے اس نے ابتداء پیدا کیا اسی طرح مار ڈالنے کے بعد دوبارہ کی پیدائش بھی اسی کے ذمہ ہے اسی نے اپنے بندوں کو غنی بنا دیا اور مال ان کے قبضہ میں دے دیا ہے جو ان کے پاس ہی بطور پونجی کے رہتا ہے اکثر مفسرین کے کلام کا خلاصہ اس مقام پر یہی ہے گو بعض سے مروی ہے کہ اس نے مال دیا اور غلام دئیے اس نے دیا اور خوش ہوا اسے غنی بنا کر اور مخلوق کو اس کا دست نگر بنا دیا جسے چاہا غنی کیا جسے چاہا فقیر لیکن یہ پچھلے دونوں قول لفظ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے ۔ شعری اس روشن ستارے کا نام ہے جسے مرزم الجوزاء بھی کہتے ہیں بعض عرب اس کی پرستش کرتے تھے ، عاد و اولیٰ یعنی قوم ہود کو جسے عاد بن ارم بن سام بن نوح بھی کہا جاتا ہے اسی نے ان کی نافرمانی کی بنا پر تباہ کر دیا جیسے فرمایا آیت ( اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ Č۝۽ ) 89- الفجر:6 ) ، یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا ؟ یعنی ارم کے ساتھ جو بڑے قدآور تھے جن کا مثل شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا تھا یہ قوم بڑی قوی اور زورآور تھی ساتھ ہی اللہ کی بڑی نافرمان اور رسول سے بڑی سرتاب تھی ان پر ہوا کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن برابر رہا اسی طرح ثمودیوں کو بھی اس نے ہلاک کر دیا جس میں سے ایک بھی باقی نہ بچا اور ان سے پہلے قوم نوح تباہ ہو چکی ہے جو بڑے ناانصاف اور شریر تھے اور لوط کی بستیاں جنہیں رحمن و قہار نے زیر و زبر کر دیا اور آسمانی پتھروں سے سب بدکاروں کا ہلاک کر دیا انہیں ایک چیز نے ڈھانپ لیا یعنی ( پتھروں نے ) جن کا مینہ ان پر برسا اور برے حالوں تباہ ہوئے ۔ ان بستیوں میں چار لاکھ آدمی آباد تھے آبادی کی کل زمین کی آگ اور گندھک اور تیل بن کر ان پر بھڑک اٹھی حضرت قتادہ کا یہی قول ہے جو بہت غریب سند سے ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ پھر فرمایا پھر تو اے انسان اپنے رب کی کس کس نعمت پر جھگڑے گا ؟ بعض کہتے ہیں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن خطاب کو عام رکھنا بہت اولیٰ ہے ابن جریر بھی عام رکھنے کو ہی پسند فرماتے ہیں ۔