Surah

Information

Surah # 53 | Verses: 62 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 23 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Except 32, from Madina
فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى‏ ﴿55﴾
پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟
فباي الاء ربك تتمارى
Then which of the favors of your Lord do you doubt?
Pus aey insan tu apney rab ki kiss neimat kay baray mein jhagray ga?
لہذا ( اے انسان ) تو اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں میں شک کرے گا؟ ( ٢٥ )
تو اے سننے والے اپنے رب کی کون سی نعمتوں میں شک کرے گا ،
پس 47 اے مخاطب ، اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں شک کرے 48 گا ؟
سو ( اے انسان! ) تو اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :47 بعض مفسرین کے نزدیک یہ فقرہ بھی صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ کی عبادت کا ایک حصہ ہے ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ فَغَشّٰھَا مَا غَشّٰی پر وہ عبارت ختم ہو گئی ، یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ بعد کی یہ عبارت کہ یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے ، اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس سے پہلے کی تمام عبارت پچھلی تنبیہات میں سے ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں ارشاد ہوئی تھیں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :48 اصل میں لفظ تَتَمَاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی شک کرنے کے بھی ہیں اور جھگڑنے کے بھی خطاب ہر سامع سے ہے ۔ جو شخص بھی اس کلام کو سن رہا ہو اس کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں پیغمبروں سے جھگڑا کرنے کا جو انجام انسانی تاریخ میں ہو چکا ہے ، کیا اس کے بعد بھی تو اسی حماقت کا ارتکاب کرے گا ؟ پچھلی قوموں نے یہی تو شک کیا تھا کہ جن نعمتوں سے ہم اس دنیا میں مستفید ہو رہے ہیں یہ خدائے واحد کی نعمتیں ہیں ، یا کوئی اور بھی ان کے مہیا کرنے میں شریک ہے ، یا یہ کسی کی فراہم کی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ فراہم ہو گئی ہیں ۔ اسی شک کی بنا پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے جھگڑا کیا تھا ۔ انبیاء ان سے کہتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں تمہیں خدا نے ، اور اکیلے ایک ہی خدا نے عطا کی ہیں ، اس لیے اسی کا تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اسی کی تم کو بندگی بجا لانی چاہیے ۔ مگر وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تھے اور اسی بات پر انبیاء سے جھگڑتے تھے ۔ اب کیا تجھے تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ قومیں اپنے اس شک اور اس جھگڑے کا کیا انجام دیکھ چکی ہیں؟ کیا تو بھی وہی شک اور وہی جھگڑا کرے گا جو دوسروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے ؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح کے لوگ حضرت ابراہیم سے پہلے گزر چکے تھے اور قوم لوط خود حضرت ابراہیم کے زمانے میں مبتلائے عذاب ہوئی تھی ۔ اس لیے اس عبارت کے صحف ابراہیم کا ایک حصہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔