Surah

Information

Surah # 55 | Verses: 78 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 97 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالۡاَرۡضَ وَضَعَهَا لِلۡاَنَامِۙ‏ ﴿10﴾
اور اسی نے مخلوق کے لئے زمین بچھا دی ۔
و الارض و ضعها للانام
And the earth He laid [out] for the creatures.
Aur ussi ney makhlooq kay liye zameen bichadi.
اور زمین کو اسی نے ساری مخلوقات کے لیے بنایا ہے ۔
اور زمین رکھی مخلوق کے لیے ( ف۹ )
زمین9 کو اس نے سب مخلوقات کے لیئے بنایا 10
زمین کو اسی نے مخلوق کے لئے بچھا دیا
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :9 اب یہاں سے آیت 25 تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں اور اس کے ان احسانات اور اس کی قدرت کے ان کرشموں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے انسان اور جن دونوں متمتع ہو رہے ہیں اور جن کا فطری اور اخلاقی تقاضا یہ ہے کہ وہ کفر و ایمان کا اختیار رکھنے کے باوجود خود اپنی مرضی سے بَطوعَ و رغبت اپنے رب کی بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :10 اصل الفاظ ہیں زمین کو اَنام کے لیے وضع کیا ۔ وضع کرنے سے مراد ہے تالیف کرنا ، بنانا ، تیار کرنا ، رکھنا ، ثبت کرنا ۔ اور اَنام عربی زبان میں خلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان اور دوسری سب زندہ مخلوقات شامل ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کل شیء فیہ الروح ، اَنام میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے اندر روح ہے ۔ مجاہد اس کے معنی بیان کرتے ہیں خلائق ۔ قتادہ ، ابن زید اور شعبی کہتے ہیں کہ سب جاندار انام ہیں ۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ اِنس و جن دونوں اس کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ یہ معنی تمام اہل لغت نے بیان کیے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس آیت سے زمین کو ریاست کی ملکیت بنانے کا حکم نکالتے ہیں وہ ایک فضول بات کہتے ہیں ۔ یہ باہر کے نظریات لا کر قرآن میں زبردست ٹھونسنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کا ساتھ نہ آیت کے الفاظ دیتے ہیں نہ سیاق و سباق ۔ اَنام صرف انسانی معاشرے کو نہیں کہتے بلکہ زمین کی دوسری مخلوقات بھی اس میں شامل ہیں ۔ اور زمین کو اَنام کے لیے وضع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب کی مشترک ملکیت ہو ۔ اور سیاق عبارت بھی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ کلام کا مدعا اس جگہ کوئی معاشی ضابطہ بیان کرنا ہے ۔ یہاں تو مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اس طرح بنایا اور تیار کر دیا کہ یہ قسم قسم کی زندہ مخلوقات کے لیے رہنے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے قابل ہو گئی ۔ یہ آپ سے آپ ایسی نہیں ہو گئی ہے ۔ خالق کے بنانے سے ایسی بنی ہے ۔ اس نے اپنی حکمت سے اس کو ایسی جگہ رکھا اور ایسے حالات اس میں پیدا کیے جن سے یہاں زندہ انواع کا رہنا ممکن ہوا ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم النمل حواشی 73 ۔ 74 جلد چہارم ، یٰسٓ ، حواشی 29 ۔ 32 ۔ المومن حواشی 90 ۔ 91 ، حم السجدہ ، حواشی 11 تا 13 ۔ الزخرف ، حواشی 7 تا 10 الجاثیہ ، حاشیہ 7 )