سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :25
یہاں سے آیت 30 تک جن و انس کو دو حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے :
ایک یہ کہ نہ تم خود لافانی ہو اور نہ وہ سر و سامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو ۔ لافانی اور لازوال تو صرف اس خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں ۔ اب اگر تم میں سے کوئی شخص ہم چومن دیگرے نیست کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ محض اس کی کم ظرفی ہے ۔ اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بے وقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے ، یا چند بندے جو اس کے ہتھے چڑھیں ، ان کا خدا بن بیٹھے ، تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے ۔ کائنات کی وسعتوں میں جس زمین کی حیثیت ایک مٹر کے دانے برابر بھی نہیں ہے ، اس کے ایک کونے میں دس بیس یا پچاس ساٹھ برس جو خدائی اور کبریائی ملے اور پھر قصہ ماضی بن کر رہ جائے ، وہ آخر کیا خدائی اور کیا کبریائی ہے جس پر کوئی پھولے ۔
دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت روا بناتے ہو ، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء ، یا چاند اور سورج ، یا اور کسی قسم کی مخلوق ، ان میں سے کوئی تمہاری کسی حاجت کو پورا نہیں کر سکتا ۔ وہ بیچارے تو خود اپنی حاجات و ضروریات کے لیے اللہ کے محتاج ہیں ۔ اس کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوئے ہیں ۔ وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی اپنے بل بوتے پر نہیں کر سکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے ۔ زمین سے آسمانوں تک اس ناپیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے ، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے ۔ کار فرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ کسی معاملہ میں کسی بندے کی قسمت پر اثر انداز ہو سکے ۔