Surah

Information

Surah # 56 | Verses: 96 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 46 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 81 and 82, from Madina
وَاَصۡحٰبُ الۡيَمِيۡنِ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡيَمِيۡنِؕ‏ ﴿27﴾
اور داہنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے ۔
و اصحب اليمين ما اصحب اليمين
The companions of the right - what are the companions of the right?
Aur dahanay hath walay kiya hi achay hain dahanay hath walay.
اور وہ جو دائیں ہاتھ والے ہوں گے ، کیا کہنا ان دائیں ہاتھ والوں کا ۔
اور دہنی طرف والے کیسے دہنی طرف والے ( ف۲٤ )
اور دائیں بازو والے ، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا ۔
اور دائیں جانب والے ، کیا کہنا دائیں جانب والوں کا
اصحاب یمین اور ان پر انعامات الٰہی سابقین کا حال بیان کر کے اللہ تعالیٰ اب ابرار کا حال بیان فرماتا ہے جو سابقین سے کم مرتبہ ہیں ۔ ان کا کیا حال ہے کیا نتیجہ ہے اسے سنو ، یہ ان جنتوں میں ہیں جہاں بیری کے درخت ہیں لیکن کانٹے دار نہیں ۔ اور پھل بکثرت اور بہترین ہیں دنیا میں بیری کے درخت زیادہ کانٹوں والے اور کم پھلوں والے ہوتے ہیں ۔ جنت کے یہ درخت زیادہ پھلوں والے اور بالکل بےخار ہوں گے ، پھلوں کے بوجھ سے درخت کے تنے جھکے جاتے ہوں گے حضرت ابو بر احمد بن نجار رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت وارد کی ہے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ اعرابیوں کا حضور کے سامنے آنا اور آپ سے مسائل پوچھنا ہمیں بہت نفع دیتا تھا ایک مرتبہ ایک اعرابی نے آ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں ایک ایسے درخت کا بھی ذکر ہے جو ایذاء دیتا ، آپ نے پوچھا وہ کونسا اس نے کہا بیری کا درخت ، آپ نے فرمایا پھر تو نے اس کے ساتھ ہی لفظ مخضود نہیں پڑھا ؟ اس کے کانٹے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیئے ہیں اور ان کے بدلے پھل پیدا کر دیئے ہیں ہر ایک بیری میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے جن کا رنگ و مزہ مختلف ہوگا ، یہ روایت دوسری کتابوں میں بھی مروی ہے اس میں لفظ طلح ہے اور ستر ذائقوں کا بیان ہے ۔ طلح ایک بڑا درخت ہے جو حجاز کی سرزمین میں ہوتا ہے ، یہ کانٹے دار درخت ہے اس میں کانٹے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ابن جریر نے اس کی شہادت عربی کے ایک شعر سے بھی دی ہے ۔ ( منضود ) کے معنی تہ بہ تہ پھل والا ، پھل سے لدا ہوا ۔ ان دونوں کا ذکر اس لئے ہوا کہ عرب ان درختوں کی گہری اور میٹھی چھاؤں کو پسند کرتے تھے ، یہ درخت بظاہر دنیوی درخت جیسا ہو گا لیکن بجائے کانٹوں کے اس میں شیرین پھل ہوں گے ۔ جوہری فرماتے ہیں طلح بھی کہتے ہیں اور طلع بھی ، حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے ، تو ممکن ہے کہ یہ بھی بیری کی ہی صفت ہو ، یعنی وہ بیریاں بےخاسر اور بکثرت پھلدار ہیں واللہ اعلم ۔ اور حضرات نے طلح سے مراد کیلے کا درخت کہا ہے ، اہل یمن کیلے کو طلح کہتے ہیں اور اہل حجاز موز کہتے ہیں ۔ لمبے لمبے سایوں میں یہ ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت کے درخت کے سائے تلے تیز سوار سو سال تک چلتا رہے ۔ گا لیکن سایہ ختم نہ ہوگا ۔ اگر تم چاہو اس آیت کو پڑھو ، مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے اور مسند احمد ، مسند ابو یعلی میں بھی مسند کی اور حدیث میں شک کے ساتھ ہے یعنی ستر یا سو اور یہ بھی ہے کہ یہ شجرۃ الخلد ہے ، ابن جریر اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے پس یہ حدث متواتر اور قطعاً صحیح ہے اس کی اسناد بہت ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں ، ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، حضرت ابو ہریرہ نے جب یہ روایت بیان کی اور حضرت کعب کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے تورات حضرت موسیٰ پر اور قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا کہ اگر کوئی شخص نوجوان اونٹنی پر سوار ہو کر اس وقت چلتا رہے جب تک وہ بڑھیا ہو کر گر جائے تو بھی اس کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا ، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور خود آپ اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ہے اس کی شاخیں جنت کی دیواروں سے باہر نکلی ہوئی ہیں ۔ ابو حصین کہتے ہیں کہ ایک موضع میں ایک دروازے پر ہم تھے ہمارے ساتھ ابو صالح اور شفیق جہنی بھی تھے اور ابو صالح نے حضرت ابو ہریرہ والی اوپر کی حدیث بیان کی اور کہا کیا تو ابو ہریرہ کو جھٹلاتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں ، انہیں تو نہیں تجھے جھٹلاتا ہوں ۔ پس یہ قاریوں پر بہت گراں گذرا ۔ میں کہتا ہوں اس ثابت ، صحیح اور مرفوع حدیث کو جو جھٹلائے وہ غلطی پر ہے ۔ ترمذی میں ہے جنت کے ہر درخت کا تنہ سونے کا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر طرف سو سو سال کے راستے تک سایہ پھیلا ہوا ہے ۔ جنتی لوگ اس کے نیچے آکر بیٹھتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ کسی کو دنیوی کھیل تماشے اور دل بہلاوے یاد آتے ہیں تو اسی وقت ایک جنتی ہوا چلتی ہے اور اس درخت میں سے تمام راگ راگنیاں باجے گاجے اور کھیل تماشوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں ، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند قوی ہے ۔ حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں یہ سایہ ستر ہزار سال کی طولانی میں ہوگا ۔ آپ سے مرفوع حدیث میں ایک سو سال مروی ہے یہ سایہ گھٹتا ہی نہیں نہ سورج آئے نہ گرمی ستائے ، فجر کے طلوع ہونے سے پیشتر کا سماں ہر وقت اس کے نیچے رہتا ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں جنت میں ہمیشہ وہ وقت رہے گا جو صبح صادق کے بعد سے لے کر آفتاب کے طلوع ہونے کے درمیان درمیان رہتا ہے سایہ کے مضمون کی روایتیں بھی اس سے پہلے گذر چکی ہیں ، جیسے آیت ( وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا 57؀ ) 4- النسآء:57 ) اور آیت ( اُكُلُهَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّهَا 35؁ ) 13- الرعد:35 ) اور آیت ( اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ ظِلٰلٍ وَّعُيُوْنٍ 41؀ۙ ) 77- المرسلات:41 ) وغیرہ پانی ہو گا بہتا ہوا مگر نہروں کے گڑھے اور کھدی ہوئی زمین نہ ہوگی ، اس کی پوری تفسیر آیت ( فِيْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ 15؀ ) 47-محمد:15 ) میں گذر چکی ہے ۔ ان کے پاس بکثرت طرح طرح کے لذیر میوے ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے نہ کسی کان نے سنے نہ کسی انسانی دل پر ان کا وہم و خیال گذرا ۔ جیسے اور آیت میں ہے جب وہاں پھلوں سے روزی دیئے جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے بھی دئے گئے تھے کیونکہ بالکل ہم شکل ہوں گے ، لیکن جب کھائیں گے تو ذائقہ اور ہی پائیں گے ۔ بخاری و مسلم میں سدرۃ المنتہی کے ذکر میں ہے کہ اس کے پتے مثل ہاتھی کے کانوں کے ہوں گے اور پھل مثل ہجر کے بڑے بڑے مٹکوں کے ہوں گے ، حضرت ابن عباس کی اس حدیث میں جس میں آپ نے سورج کے گہن ہونے کا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج گہن کی نماز ادا کرنے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے یہ بھی ہے کہ بعد فراغت آپ کے ساتھ کے نمازیوں نے آپ سے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو اس جگہ آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے دیکھا کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا میں نے جنت دیکھی جنت کے میوے کا خوشہ لینا چاہا اگر میں لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے ۔ ابو یعلی میں ہے ظہر کی فرض نماز پڑھاتے ہوئے حضرت ابی کعب نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور ہم بھی پھر آپ نے گویا کوئی چیز لینی چاہی ، پھر پیچھے ہٹ آئے ، نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابی کعب نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو آپ نے ایسی بات کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی ، آپ نے فرمایا میرے سامنے جنت لائی گئی اور جو اس میں تروتازگی اور سبزی ہے میں نے اس میں سے ایک انگور کا خوشہ توڑنا چاہا تا کہ لا کر تمہیں دوں پس میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور اگر اس میں اسے تمہارے پاس لے آتا تو زمین و آسمان کے درمیان کی مخلوق اسے کھاتی رہتی تاہم اس میں ذرا سی بھی کمی نہ آتی ۔ اسی کے مثل حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم شریف میں بھی مروی ہے ، مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کی بابت سوال کیا اور جنت کا بھی ذکر کیا پوچھا کہ کیا اس میں میوے بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں وہاں طوبیٰ نامی درخت بھی ہے؟ پھر کچھ کہا جو مجھے یاد نہیں پھر پوچھا وہ درخت ہماری زمین کے کس درخت سے مشابہت رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا تیرے ملک کی زمین میں کوئی درخت اس کا ہم شکل نہیں ۔ کیا تو شام میں گیا ہے؟ اس نے کہا نہیں ، فرمایا شام میں ایک درخت ہوتا ہے جسے جوزہ کہتے ہیں ایک ہی تنہ ہوتا ہے اور اوپر کا حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ البتہ اس کے مشابہ ہے ، اس نے پوچھا جنتی خوشے کتنے بڑے ہوتے ہیں؟ فرمایا کالا کوا مہینہ بھر تک اڑتا رہے اتنے بڑے ۔ وہ کہنے لگا اس درخت کا تنہ کس قدر موٹا ہے آپ نے فرمایا اگر تو اپنی اونٹنی کے بچے کو چھوڑ دے اور وہ چلتا رہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر گر پڑے تب بھی اس کے تنے کا چکر پورا نہیں کر سکتا ۔ اس نے کہا اس میں انگور بھی لگتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں پوچھا کتنے بڑے ؟ آپ نے جواب دیا کہ کیا کبھی تیرے باپ نے اپنے ریوڑ میں سے کوئی موٹا تازہ بکرا ذبح کر کے اس کی کھال کھینچ کر تیری ماں کو دے کر کہا ہے کہ اس کا ڈول بنا لو؟ اس نے کہا ہاں ، فرمایا بس اتنے ہی بڑے بڑے انگور کے دانے ہوتے ہیں ۔ اس نے کہا پھر تو ایک ہی دانہ مجھ کو اور میرے گھر والوں کو کافی ہے آپ نے فرمایا بلکہ ساری برادری کو ، پھر یہ میوے بھی ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ نہ کبھی ختم ہوں نہ کبھی ان سے روکا جائے ۔ یہ نہیں کہ جاڑے میں ہیں اور گرمیوں میں نہیں ، یا گرمیوں میں ہیں اور جاڑوں میں ندارد بلکہ یہ میوے دوام والے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں جب طلب کریں پالیں اللہ کی قدرت ہر وقت وہ موجود رہیں گے ، بلکہ کسی کانٹے اور کسی شاخ کو بھی آڑ نہ ہو گی نہ دوری ہو گی نہ حاصل کرنے میں تکلف اور تکلیف ہوگی ۔ بلکہ ادھر پھل توڑا ادھر اس کے قائم مقام دوسرا پھل لگ گیا ، جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذر چکا ۔ ان کے فرش بلند و بالا نرم اور گدگدے راحت و آرام دینے والے ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کی اونچائی اتنی ہوگی جتنی زمین و آسمان کی یعنی پانچ سو سال کی ( ترمذی ) یہ حدیث غریب ہے ، بعض اہل معانی نے کہا ہے کہ مطلب اس حدیث شریف کا یہ ہے کہ فرش کی بلندی درجے کی آسمان و زمین کے برابر ہے یعنی ایک درجہ دوسرے درجے سے اس قدر بلند ہے ۔ ہر دو درجوں میں پانچ سو سال کی راہ کا فاصلہ ہے ، پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ روایت صرف رشد بن سعد سے مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں ۔ یہ روایت ابن جرید ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی ہے ۔ حضرت حسن سے مروی ہے کہ ان کی اونچائی اسی سال کی ہے ۔ اس کے بعد ضمیر لائی جس کا مرجع پہلے مذکور نہیں اس لئے کہ قرینہ موجود ہے ۔ بستر کا ذکر آیا جس پر جنتیوں کی بیویاں ہوں گی پس ان کی طرف ضمیر پھیر دی ۔ جیسے حضرت سلیمان کے ذکر میں تورات کا لفظ آیا ہے اور شمس کا لفظ اس سے پہلے نہیں پس قرینہ کافی ہے ۔ لیکن ابو عبیدہ کہتے ہیں پہلے مذکورہ ہو چکا آیت ( وَحُوْرٌ عِيْنٌ 22۝ۙ ) 56- الواقعة:22 ) پس فرماتا ہے کہ ہم نے ان بیویوں کو نئی پیدائش میں پیدا کیا ہے ، اس کے بعد کہ وہ باکل پھوس بڑھیا تھیں ہم نے انہیں نو عمر کنواریاں کر کے ایک خاص پیدائش میں پیدا کیا ۔ وہ اپنے ظفافت و ملاحت ، حسن صورت و جسامت سے خوش خلقی اور حلاوت کی وجہ سے اپنے خاوندوں کی بڑی پیاریاں ہیں ، بعض کہتے ہیں عرباء کہتے ہیں ناز و کرشمہ والیوں کو حدیث میں ہے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا میں بڑھیا تھیں اور اب جنت میں گئی ہیں تو انہیں نو عمر وغیرہ کر دیا ہے اور روایت میں ہے کہ خواہ یہ عورتیں کنواری تھیں یا ثیبہ تھیں اللہ ان سب کو ایسی کر دے گا ، ایک بڑھیا عورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتی ہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے آپ نے فرمایا ام فلاں جنت میں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی ، وہ روتی ہوئی واپس لوٹیں تو آپ نے فرمایا جاؤ انہیں سمجھا دو ، مطلب یہ ہے کہ جب وہ جنت میں جائیں گی بڑھیا نہ ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم انہیں نئی پیدائش میں پیدا کریں گے پھر باکرہ کر دیں گے شمائل ترمذی وغیرہ طبرانی میں ہے حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ حورعین کی خبر مجھے دیجئے آپ نے فرمایا وہ گورے رنگ کی ہیں بڑی بڑی آنکھوں والی ہیں سخت سیاہ اور بڑے بڑے بالوں والی ہیں جیسے گدھ کا پر ، ۔ میں نے کہا ( اللُّؤْلُـہ الْمَكْنُوْنِ 23۝ۚ ) 56- الواقعة:23 ) کی بابت خبر دیجئے آپ نے ارشاد فرمایا دن کی صفائی اور جوت مثل اس موتی کے ہے جو سیپ سے ابھی ابھی نکلا ہو جسے کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو ، میں نے کہا خیرات حسان کی کیا تفسیر ہے؟ فرمایا خوش خلق خوبصورت میں نے کہا ( كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ 49؀ ) 37- الصافات:49 ) سے کیا مراد ہے؟ فرمایا ان کی نذاکت اور نرمی انڈے کی اس جھلی کی مانند ہو گی جو اندر ہوتی ہے ، میں نے عرباء اترابا کے معنی دریافت کئے ، فرمایا اس سے مراد دنیا کی مسلمان جنتی عورتیں ہیں جو بالکل بڑھیا پھوس تھیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں نئے سرے سے پیدا کیا اور کنواریاں اور خاوندوں کی چہیتیاں اور خاوندوں سے عشق رکھنے والیاں اور ہم عمر بنا دیں ، میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی عورتیں افضل ہیں جیسے استر سے ابرا بہتر ہوتا ہے ، میں نے کہا اس فضیلت کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا نمازیں روزے اور اللہ تعالیٰ کی عبادتیں ، اللہ نے ان کے چہرے نور سے ان کے جسم ریشم سے سنوار دیئے ہیں ، سفید ریشم ، سبز ریشم اور زرد سنہرے ریشم اور زرد سنہرے زیور بخوردان موتی کے کنگھیاں سونے کی یہ کہتی رہیں گی نحن الخالدات فلا نموت ابدا ونحن الناعمات فلا نباس ابدا ونحن المقیمات فلا نطعن ابدا ونحن الراضیات فلا نسخط ابدا طوبی لمن کنا لہ وکان لنا یعنی ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی مریں گی نہیں ، ہم ناز اور نعمت والیاں ہیں کہ کبھی سفر میں نہیں جائیں گی ہم اپنے خاوندوں سے خوش رہنے والیاں ہیں کہ کبھی روٹھیں گی نہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے لئے ہم ہیں اور خوش نصیب ہیں ہم کہ ان کے لئے ہیں ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض عورتوں کے دو دو تین تین چار چار خاوند ہو جاتے ہیں اس کے بعد اسے موت آتی ہے مرنے کے بعد اگر یہ جنت میں گئی اور اس کے سب خاوند بھی گئے تو یہ کسے ملے گی؟ آپ نے فرمایا اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ چاہے رہے چنانچہ یہ ان میں سے اسے پسند کرے گی جو اس کے ساتھ بہترین برتاؤ کرتا رہا ہو ، اللہ تعالیٰ سے کہے گی پروردگار یہ مجھ سے بہت اچھی بودوباش رکھتا تھا اسی کے نکاح میں مجھے دے ، اے ام سلمہ حسن خلق دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو لئے ہوئے ہے ۔ صور کی مشہور مطول حدیث میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو جنت میں لے جانے کی سفارش کریں گے جس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے آپ کی شفاعت قبول کی اور آپ کو انہیں جنت میں پہنچانے کی اجازت دی ، آپ فرماتے ہیں پھر میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا اللہ کی قسم تم جس قدر اپنے گھر بار اور اپنی بیویوں سے واقف ہو اس سے بہت زیادہ اہل جنت اپنے گھروں اور بیویوں سے واقف ہوں گے ۔ پس ایک ایک جنتی کی بہتر بہتر بیویاں ہوں گی جو اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور دو دو بیویاں عورتوں میں سے ہوں گی کہ انہیں بوجہ اپنی عبادت کے ان سب عورتوں پر فضیلت حاصل ہوگی جنتی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا یہ اس بالا خانے میں ہوگی جو یاقوت کا بنا ہوا ہوگا اس پلنگ پر ہوگی جو سونے کی تاروں سے بنا ہوا ہوگا اور جڑاؤ جڑا ہوا ہوگا ، ستر جوڑے پہنے ہوئے ہوں گے جو سب باریک اور سبز چمکیلے خالص ریشم کے ہوں گے ، یہ بیوی اس قدر نازک نورانی ہوگی کہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سینے کی طرف سے دیکھے گا تو صاف نظر آجائے گا ، کہ کپڑے گوشت ہڈی کوئی چیز روک نہ ہوگی اس قدر اس کا جسم صاف اور آئینہ نما ہوگا جس طرح مروارید میں سوراخ کر کے ڈورا ڈال دیں تو وہ ڈورا باہر سے نظر آتا ہے اسی طرح اس کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا ۔ ایسا ہی نورانی بدن اس جنتی کا بھی ہوگا ، الغرض یہ اس کا آئینہ ہوگی ، اور وہ اس کا یہ اس کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہوگا نہ یہ تھکے نہ وہ اس کا دل بھرے نہ اس کا ۔ جب کبھی نزدیکی کرے گا تو کنواری پائے گا نہ اس کا عضو سست ہو نہ اسے گراں گذرے مگر خاص پانی وہاں نہ ہوگا جس سے گھن آئے ، یہ یونہی مشغول ہوگا جو کان میں ندا آئے گی کہ یہ تو ہمیں خوب معلوم ہے کہ نہ آپ کا دل ان سے بھرے گا نہ ان کا آپ سے مگر آپ کی دوسری بیویاں بھی ہیں ، اب یہ یہاں سے باہر آئے گا اور ایک ایک کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا اسے دیکھ کر بےساختہ اس کے منہ سے نکل جائے گا ۔ کہ رب کی قسم تجھ سے بہتر جنت میں کوئی چیز نہیں نہ میری محبت کسی سے تجھ سے زیادہ ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جنت سے تجھ سے زیادہ ہے ، حضرت ابو ہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ کیا جنت میں جنتی لوگ جماع بھی کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے خوب اچھی طرح بہترین طریق پر جب الگ ہوگا وہ اسی وقت پھر پاک صاف اچھوتی باکرہ بن جائے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کو جنت میں اتنی اتنی عورتوں کے پاس جانے کی قوت عطا کی جائے گی ، حضرت انس نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا اتنی طاقت رکھے گا ؟ آپ نے فرمایا ایک سو آدمیوں کے برابر اسے قوت ملے گی ، طبرانی کی حدیث میں ہے ایک ایک سو کنواریوں کے پاس ایک ایک دن میں ہو آئے گا ۔ حافظ عبداللہ مقدسی فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ حدیث شرط صحیح پر ہے واللہ اعلم ۔ ابن عباس عربا کی تفسیر میں فرماتے ہں یہ اپنے خاوندوں کی محبوبہ ہوں گی ، یہ اپنے خاوندوں کی عاشق اور خاوند ان کے عاشق ۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ اس کا معنی ناز و کرشمہ والی ہے اور سند سے مروی ہے کہ معنی نزاکت والی ہے ، تمیم بن حدلم کہتے ہیں عربا اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے خاوند کا دل مٹھی میں رکھے ۔ زید بن اسلم وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد خوش کلام ہے اپنی باتوں سے اپنے خاوندوں کا دل مول لیتی ہیں جب کچھ بولیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پھول جھڑتے ہیں اور نور برستا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ انہیں عرب اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی بول چال عربی زبان میں ہوگی ۔ اتراب کے معنی ہیں ہم عمر عینی تینتیس برس کی اور معنی ہیں کہ خاوند کی اور ان کی طبیعت اور خلق بالکل یکساں ہے جس سے وہ خوش یہ خوش جو اسے ناپسند اسے بھی ناپسند ۔ ، یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ آپس میں ان میں بیر بغض سوتیا ڈاہ حسد اور رشک نہ ہوگا ۔ یہ سب آپس میں بھی ہم عمر ہوں گی تاکہ بےتکلف ایک دوسری سے ملیں جلیں کھیلیں کودیں ، ترمذی کی حدیث میں ہے کہ یہ جنتی حوریں ایک روح افزا باغ میں جمع ہو کر نہایت پیارے گلے سے گانا گائیں گی کہ ایسی سریلی اور رسیلی آواز مخلوق نے کبھی نہ سنی ہوگی ، ان کا گانا وہی ہوگا جو اوپر بیان ہوا ابو یعلی میں ہے ان کے گانے میں یہ بھی ہوگا ( نحن خیرات حسان ) ۔ ( خبئنا لازواج کرام ) ہم پاک صاف خوش وضع خوبصورت عورتیں ہیں جو بزرگ اور ذی عزت شوہروں کے لئے چھپا کر رکھی گئی تھیں اور روایت میں خیرات کے بدلے جوار کا لفظ آیا ہے ۔ پھر فرمایا یہ اصحاب یمین کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور انہی کے لئے محفوظ و مصؤن رکھی گئی تھیں ۔ لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ متعلق ہے آیت ( اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35۝ۙ ) 56- الواقعة:35 ) ، کے یعنی ہم نے انہیں ان کے لئے بنایا ہے ۔ حضرت ابو سلیمان دارانی رحمتۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ میں نے ایک رات تہجد کی نماز کے بعد دعا مانگنی شروع کی ، چونکہ سخت سردی تھی ، بڑے زور کا پالا پڑھ رہا تھا ، ہاتھ اٹھائے نہیں جاتے تھے اس لئے میں نے ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگی اور اسی حالت میں دعا مانگتے مانگتے مجھے نیند آگئی خواب میں میں نے ایک حور کو دیکھا کہ اس جیسی خوبصورت نورانی شکل کبھی میری نگاہ سے نہیں گزری اس نے مجھ سے کہا اے ابو سلیمان ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگنے لگے اور یہ خیال نہیں کہ پانچ سو سال سے اللہ تعالیٰ مجھے تمہارے لئے اپنی خاص نعمتوں میں پرورش کر رہا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لام متعلق اتراباً کے ہو یعنی ان کی ہم عمر ہوں گی جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودہویں رات جیسے روشن ہوں گے ان کے بعد والی جماعت کے بہت چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے یہ پاخانے پیشاب تھوک رینٹ سے پاک ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی ان کے پسینے مشک کی خوشبو والے ہوں گے ان کی انگیٹھیاں لؤلؤ کی ہوں گی ان کی بیویاں حور عین ہوں گی ان سب کے اخلاق مثل ایک ہی شخص کے ہوں گے ، یہ سب اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی شکل پر ساٹھ ہاتھ کے لانبے قد کے ہوں گے ۔ طبرانی میں ہے اہل جنت بےبال اور بےریش گورے رنگ والے خوش خلق اور خوبصورت سرمگیں آنکھوں والے تینتیس برس کی عمر کے سات ہاتھ لانبے اور سات ہاتھ چوڑے چکلے مضبوط بدن والے ہوں گے ۔ اس کا کچھ حصہ ترمذی میں بھی مروی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ گو کسی عمر میں انتقال ہوا ہو دخول جنت کے وقت تینتیس سالہ عمر کے ہوں گے اور اسی عمر میں ہمیشہ رہیں گے ، اسی طرح جہنمی بھی ( ترمذی ) اور روایت میں ہے کہ ان کے قد سات ہاتھ فرشتے کے ہاتھ کے اعتبار سے ہوں گے قد آدم حسن یوسف عمر عیسیٰ یعنی تینتیس سال اور زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یعنی عربی والے ہوں گے ، بےبال اور سرمگیں آنکھوں والے ( ابن ابی الدنیا ) اور روایت میں ہے کہ دخول جنت کے ساتھ ہی انہیں ایک جنتی درخت کے پاس لایا جائے گا اور وہاں انہیں کپڑے پہنائے جائیں گے ان کے کپڑے نہ گلیں نہ سڑیں نہ پرانے ہوں نہ میلے ہوں ان کی جوانی نہ ڈھلے نہ جائے نہ فنا ہو ۔ اصحاب یمین گزشتہ امتوں میں سے بھی بہت ہیں اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمایا میرے سامنے انبیاء مع اپنے تابعدار امتیوں کے پیش ہوئے بعض نبی گذرتے تھے اور بعض نبی کے ساتھ ایک جماعت ہوتی تھی اور بعض نبی کے ساتھ صرف تین آدمی ہوتے تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی تھا راوی حدیث حضرت قتادہ نے اتنا بیان فرمایا کہ یہ آیت پڑھی ( اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ 78؀ ) 11-ھود:78 ) کیا تم میں سے ایک بھی رشد و سمجھ والا نہیں؟ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام گذرے جو بنی اسرائیل کی ایک بڑی جماعت ساتھ لئے ہوئے تھے ، میں نے پوچھا پروردگار یہ کون ہیں؟ جواب ملا یہ تمہارے بھائی موسیٰ بن عمران ہیں اور ان کے ساتھ ان کی تابعداری کرنے والی امت ہے میں نے پوچھا الٰہی پھر میری امت کہاں ہے؟ فرمایا اپنی داہنی جانب نیچے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو بہت بڑی جماعت نظر آئی لوگوں کے بکثرت چہرے دمک رہے تھے ، پھر مجھ سے پوچھا کہو اب تو خوش ہو میں نے کہا ہاں الٰہی میں خوش ہوں ، مجھ سے فرمایا اب اپنی بائیں جانب کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا وہ وہاں بیشمار لوگ تھے پھر مجھ سے پوچھا اب تو راضی ہوگئے؟ میں نے کہا ہاں میرے رب میں راضی ہوں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور سنو ان کے ساتھ ستر ہزار اور لوگ ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے یہ سن کر حضرت عکاشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے ، یہ قبیلہ بنو اسد سے محصن کے لڑکے تھے بدر کی لڑائی میں موجود تھے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہی میں سے کرے آپ نے دعا کی پھر ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول میرے لئے بھی دعا کیجئے ۔ آپ نے فرمایا عکاشہ تجھ پر سبقت کر گئے ، پھر آپ نے فرمایا لوگوں تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں اگر تم سے ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے بنو جو بےحساب جنت میں جائیں گے ، ورنہ کم سے کم دائیں جانب والوں میں سے ہو جاؤ گے ، یہ بھی نہ ہو سکے تو کنارے والوں میں سے بن جاؤ ۔ میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ اپنے حال میں ہی لٹک جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی چوتھائی تعداد صرف تمہاری ہی ہوگی ۔ پس ہم نے تکبیر کہی پھر فرمایا بلکہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت کی تہائی والے ہوگے ، ہم نے پھر تکبیر کہی ۔ فرمایا اور سنو! تم آدھوں آدھ اہل جنت کے ہوگے ہم نے پھر تکبیر کہی اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت ( ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ 13۝ۙ ) 56- الواقعة:13 ) کی تلاوت کی ۔ اب ہم میں آپس میں مذاکرہ شروع ہو گیا کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے ، پھر ہم نے کہا وہ لوگ جو اسلام میں پیدا ہوئے اور شرک کیا ہی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیں لگواتے اور جھاڑ پھونک نہیں کرواتے اور فال نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت سی سندوں سے صحابہ کی روایت سے بہت سی کتابوں میں صحت کے ساتھ مروی ہے ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آیت میں پہلوں پچھلوں سے مراد میری امت کے اگلے پچھلے ہی ہیں ۔