Surah

Information

Surah # 68 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 2 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 17-33 and 48-50, from Madina
اِنَّا بَلَوۡنٰهُمۡ كَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ‌ ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَيَصۡرِمُنَّهَا مُصۡبِحِيۡنَۙ‏ ﴿17﴾
بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے ۔
انا بلونهم كما بلونا اصحب الجنة اذ اقسموا ليصرمنها مصبحين
Indeed, We have tried them as We tried the companions of the garden, when they swore to cut its fruit in the [early] morning
Be-shak hum ney unhen issi tarah aazmaliya jiss tarah hum ney baagh walon ko aazmaya tha job unho ney qasman khayen kay subha hotay hi iss baagh kay phal utar lengay.
ہم نے ان ( مکہ والوں ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جیسے ( ایک ) باغ والوں کو اس وقت آزمائش میں ڈالا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ صبح ہوتے ہی ہم اس باغ کا پھل توڑ لیں گے ۔ ( ٧ )
بیشک ہم نے انہیں جانچا ( ف۱۸ ) جیسا اس باغ والوں کو جانچا تھا ( ف۱۹ ) جب انہوں نے قسم کھائی کہ ضرور صبح ہوتے اس کھیت کو کاٹ لیں گے ( ف۲۰ )
ہم نے ان ﴿اہل مکہ﴾ کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا12 ، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے
بے شک ہم ان ( اہلِ مکہ ) کی ( اُسی طرح ) آزمائش کریں گے جس طرح ہم نے ( یمن کے ) ان باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ ہم صبح سویرے یقیناً اس کے پھل توڑ لیں گے
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :12 اس مقام پر سورہ کہف رکوع 5 بھی پیش نظر رہے جس میں اسی طرح عبرت دلانے کے لیے دو باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے ۔
سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی یہاں ان کافروں کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا ، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبر کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کر دیا ہے ، تو فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے ، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے ، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے انشاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لئے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی ، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لئے تیار کر دی گئی ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بےنصیب ہو گئے ( ابن ابی حاتم ) صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو ، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ باغ انگور کا تھا ، اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے ، چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے وہ بیان فرماتا ہے کہ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے ، سدی فرماتے ہیں حرد ان کی بستی کا نام تھا لیکن یہ کچھ زیادہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ۔ یہ جانتے تھے کہا اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے ، لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے ۔ کہ لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ میوؤں سے لدے ہوئے درخت اور پکے ہوئے پھل سب غارت اور برباد ہو چکے ہیں سارے باغ میں آندھی پھر گئی ہے اور کل باغ میوؤں سمیت جل کر کوئلہ ہو گیا ہے ، کوئی پھل نصف دام کا بھی نہیں رہا ، ساری تروتازگی پژمردگی سے بدل گئی ہے ، باغ سارا کا سارا جل کر راکھ ہو گیا ہے درختوں کے کالے کالے ڈراؤنے ٹنڈ کھڑے ہوئے ہیں ، پہلے تو سمجھے کہ ہم راہ بھول گئے کسی اور باغ میں چلے آئے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط تھا جس کا یہ نتیجہ ہے پھر بغور دیکھنے سے جب یقین ہو گیا کہ باغ تو یہ ہمارا ہی ہے تب سمجھ گئے اور کہنے لگے ہے تو یہی لیکن ہم بدقسمت ہیں ، ہمارے نصیب میں ہی اس کا پھل اور فائدہ نہیں ، ان سب میں جو عدل و انصاف والا اور بھلائی اور بہتری والا تھا وہ بول پڑا کہ دیکھو میں تو پہلے ہی تم سے کہتا تھا کہ تم انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے ، سدی فرماتے ہیں ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا بھی انشاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا ، امام ابن جریر فرماتے ہیں اس کے معنی ہی انشاء اللہ کہنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بہتر شخص نے ان سے کہا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم کیوں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی حمد و ثناء نہیں کرتے؟ یہ سن کر اب وہ کہنے لگ ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اب اطاعت بجا لائے جبکہ عذاب پہنچ چکا اب اپنی تقصیر کو مانا جب سزا دے دی گئی ، اب تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت ہی برا کیا کہ مسکینوں کا حق مارنا چاہا اور اللہ کی فرمانبرداری سے رک گئے ، پھر سب نے کہا کہ کوئی شک نہیں ہماری سرکشی حد سے بڑھ گئی اسی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا ، پھر کہتے ہیں شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے یعنی دنیا میں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرت کے خیال سے انہوں نے یہ کہا ہو واللہ اعلم ، بعض سلف کا قول ہے کہ یہ واقعہ اہل یمن کا ہے ، حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یہ لوگ فروان کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اہل حبشہ تھے ۔ مذہباً اہل کتاب تھے یہ باغ انہیں ان کے باپ کے ورثے میں ملا تھا اس کا یہ دستور تھا کہ باغ کی پیداوار میں سے باغ کا خرچ نکال کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے سال بھر کا خرچ رکھ کر باقی نفع اللہ کے نام صدقہ کر دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد ان بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا جو اتنی بڑی رقم ہر سال ادھر ادھر دے دیتا تھا ہم ان فقیروں کو اگر نہ دیں اور اپنا مال باقاعدہ سنبھالیں تو بہت جلد دولت مند بن جائیں یہ ارادہ انہوں نے پختہ کر لیا تو ان پر وہ عذاب آیا جس نے اصل مال بھی تباہ کر دیا اور بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ، پھر فرماتا ہے جو شخص بھی اللہ کے حکموں کے خلاف کرے اور اللہ کی نعمتوں میں بخل کرے اور مسکینوں محتاجوں کا حق ادا نہ کرے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرے اس پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں اور یہ تو دنیوی عذاب ہیں آخرت کے عذاب تو ابھی باقی ہیں جو سخت تر اور بدتر ہیں ، بیہقی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے رات کے وقت کھیتی کاٹنے اور باغ کے پھل اتارنے سے منع فرما دیا ہے ۔