Surah

Information

Surah # 68 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 2 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 17-33 and 48-50, from Madina
يَوۡمَ يُكۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّيُدۡعَوۡنَ اِلَى السُّجُوۡدِ فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَۙ‏ ﴿42﴾
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو ( سجدہ ) نہ کر سکیں گے ۔
يوم يكشف عن ساق و يدعون الى السجود فلا يستطيعون
The Day the shin will be uncovered and they are invited to prostration but the disbelievers will not be able,
Jiss din pindali khol di jayegi aur sajday kay liye bulaye jayengay to ( sajdah ) na ker saken gay.
جس دن ساق کھول دی جائے گی ، اور ان کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ کر نہیں سکیں گے ۔ ( ١٤ )
جس دن ایک ساق کھولی جائے گی ( جس کے معنی اللہ ہی جانتا ہے ) ( ف٤٦ ) اور سجدہ کو بلائے جائیں گے ( ف٤۷ ) تو نہ کرسکیں گے ( ف٤۸ )
جس روز سخت وقت آپڑے24 گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے ،
جس دن ساق ( یعنی اَحوالِ قیامت کی ہولناک شدت ) سے پردہ اٹھایا جائے گا اور وہ ( نافرمان ) لوگ سجدہ کے لئے بلائے جائیں گے تو وہ ( سجدہ ) نہ کر سکیں گے
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :24 اصل الفاظ ہیں یوم یکشف عن ساق ، جس روز پنڈلی کھولی جائے گی ۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ محاورے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آ پڑنے کو کشف ساق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے بھی اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں اور ثبوت میں کلام عرب سے استشہاد کیا ہے ۔ ایک اور قول جو ابن عباس اور ربیع بن انس سے منقول ہے اس میں کشف ساق سے مراد حقائق پر سے پردہ اٹھانا لیا گیا ہے ۔ اس تاویل کی رو سے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آ جائیں گے ۔
سجدہ اس وقت منافقوں کے بس میں نہیں ہو گا اوپر چونکہ بیان ہوا تھا کہ پرہیزگار لوگوں کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں اسلئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی؟ تو فرمایا کہ اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ۔ یعنی قیامت کے دن جو دن بڑی ہولناکیوں والا زلزلوں والا امتحان والا اور آزمائش والا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا ۔ صحیح بخاری شریف میں اس جگہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی ، یعنی ان سے سجدے کے لئے جھکا نہ جائے گا ، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے ( ابن جریر ) اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ ابن مسعود یا ابن عباس سے آیت ( يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 42؀ۙ ) 68- القلم:42 ) کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے جیسے شاعر کا قول ہے ( شالت الحرب عن ساق ) یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے ، مجاہد سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی ، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے ، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے ، یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں ، اس کے بعد یہ حدیث ابو یعلی میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے واللہ اعلم ( یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گذری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا ، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اور اقوال بھی اسطرح ٹھیک ہیں کہ اللہ عالم کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی واللہ اعلم ۔ مترجم ) پھر فرمایا جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے ، صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا تو رک جاتا تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے پہلے کر سکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گر پڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کر سکیں گے کمر تختہ ہو جائے گی جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گر پڑیں گے ، یہاں بھی ان کی حالت مومنوں کے خلاف تھی وہاں بھی خلاف ہی رہے گی ۔ پھر فرمایا مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے ، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں آپ ان سے نپٹ لوں گا دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا ۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55؀ۙ ) 23- المؤمنون:55 ) ، یعنی کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لئے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے ، نہیں بلکہ یہ بےشعور ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ ) 6- الانعام:44 ) جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے میں انہیں ڈھیل دوں گا ، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ١٠٢؀ ) 11-ھود:102 ) یعنی اسی طرح ہے تیرے رب کی پکڑ جبکہ وہ کسی بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت سخت ہے ۔ پھر فرمایا تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں ، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ۔ ان دونوں جملوں کی تفسیر سورہ والطور میں گذر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ کو جھٹلا رہے ہیں ۔