Surah

Information

Surah # 68 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 2 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 17-33 and 48-50, from Madina
فَاصۡبِرۡ لِحُكۡمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنۡ كَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ‌ۘ اِذۡ نَادٰى وَهُوَ مَكۡظُوۡمٌؕ‏ ﴿48﴾
بس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے ( انتظار کر ) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی ۔
فاصبر لحكم ربك و لا تكن كصاحب الحوت اذ نادى و هو مكظوم
Then be patient for the decision of your Lord, [O Muhammad], and be not like the companion of the fish when he called out while he was distressed.
Pus tu apnay rab kay hokum ka sabar say ( intezar ker ) aur machli walay ki tarah na ho jo jab kay uss nay ghum ki holat main dua ki.
غرض تم اپنے پروردگار کا حکم آنے تک صبر کیے جاؤ ، اور مچھلی والے کی طرح مت ہوجانا ۔ ( ١٥ ) جب انہوں نے غم سے گھٹ گھٹ کر ( ہمیں ) پکارا تھا ۔
تو تم اپنے رب کے حکم کا انتظار کرو ( ف٦۰ ) اور اس مچھلی والے کی طرح نہ ہونا ( ف٦۱ ) جب اس حال میں پکارا کہ اس کا دل گھٹ رہا تھا ( ف٦۲ )
پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو 31 اور مچھلی والے ﴿یونس ( علیہ السلام ) ﴾ کی طرح نہ ہو 32 جاؤ ، جب اس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا33 ۔
پس آپ اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر فرمائیے اور مچھلی والے ( پیغمبر یونس علیہ السلام ) کی طرح ( دل گرفتہ ) نہ ہوں ، جب انہوں نے ( اللہ کو ) پکارا اس حال میں کہ وہ ( اپنی قوم پر ) غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :31 یعنی وہ وقت ابھی دور ہے جب اللہ تعالی تمہاری فتح و نصرت اور تمہارے ان مخالفین کی شکست کا فیصلہ فرما دے گا ۔ اس وقت کے آنے تک جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی اس دین کی تبلیغ میں پیش آئیں انہیں صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ ۔ سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :32 یعنی یونس علیہ السلام کی طرح بے صبری سے کام نہ لو جو اپنی بے صبری کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیے گئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کی تلقین کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ یونس علیہ السلام کی طرح نہ ہو جاؤ ، خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اللہ کا فیصلہ آنے سے پہلے بے صبری سے کوئی کام کیا تھا جس کی بنا پر وہ عتاب کے مستحق ہو گئے تھے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، آیت 98 ، حاشیہ 99 ۔ جلد سوم ، الانبیا ، آیات 87 ۔ 88 حواشی 82 تا 85 ، جلد چہارم ، الصافات آیات 139 تا 149 حواشی 78 تا 85 ) ۔ سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :33 سورہ انبیاء میں اس کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ مچھلی کے پیٹ اور سمندر کی تاریکیوں میں حضرت یونس علیہ السلام نے پکارا تھا لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین ، کوئی خدا نہیں تیری پاک ذات کے سوا ، میں واقعی خطا وار ہوں ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی فریاد سن لی اور ان کو غم سے نجات دی ( آیات 87 ۔ 88 ) ۔
مصائب سے نجات دلانے والی دعا, نظر ، فال اور شگون اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے ، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا اس سے مراد حضرت یونس بن متی علیہ السلام ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا ، یعنی آپ کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر کو اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا اور آیت ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ ) 21- الأنبياء:87 ) پڑھنا پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں پڑے رہتے ، یہاں بھی فرمان ہے کہ جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا ، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یونس علیہ السلام کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا ، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے اسے پہچانا نہیں؟ فرشتوں نے عرض کیا نہیں ، جناب باری نے فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتوں نے کہا پروردگار پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سچ ہے ، فرشتوں نے کہا پھر اے ارحم الراحمین ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما ، چنانچہ فرمان باری ہوا کہ اے مچھلی تو انہیں اگل دے اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا ، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کر دیا ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو حضرت یونس بن متی سے افضل بتائے ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ، اگلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گذرتے ، اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے ، ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے ، بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے اور صحیح مسلم شریف میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے ، بخاری شریف اور ترمذی میں بھی ہے ، ایک غریب حدیث ابو یعلی میں ہے کہ نظر میں کچھ بھی حق نہیں سب سے سچا شگون فال ہے ، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں اور روایت میں ہے کہ کوئی ڈر ، خوف ، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے اور روایات میں ہے کہ نظر حق ہے ، نظر حق ہے ، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں ہے نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر کر جاتی جب تم سے غسل کرایا جائے تو غسل کر لیا کرو ، عبدالرزاق میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین ان الفاظ کے ساتھ پناہ میں دیتے دعا ( اعیذ کما بکلمات اللہ التامتہ من کل شیطان وھامتہ ومن کل عین لامتہ ) یعنی تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بھرپور کلمات کی پناہ میں سونپتا ہوں ہر شیطان سے اور ہر ایک زہریلے جانور سے اور ہر ایک لگ جانے والی نظر سے اور فرماتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو انہی الفاظ سے اللہ کی پناہ دیا کرتے تھے ، یہ حدیث سنن میں اور بخاری شریف میں بھی ہے ، ابن ماجہ میں ہے کہ سہل بن حنیف غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہوگئے آپ نے فرمایا کسی پر تمہارا شک بھی ہے لوگوں نے کا کہاں عامر بن ربیعہ پر ، آپ نے فرمایا تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے برکت کی دعا کرے پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا تم وضو کرو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمبد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو ، نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے ، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے ، جب سورہ معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا ( ابن ماجہ ترمذی نسائی ) مسند وغیرہ میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے نبی صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں تو جبرائیل صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا دعا ( بسم اللہ ارقیک من کل شئی یوذیک من شر کل نفس وعین واللہ یشفیک بسم اللہ ارقیک ) بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے ، مسند کی ایک حدیث میں اس کے بعد یوں بھی ہے کہ اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے ، مسند کی اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر گھوڑ اور عورت تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا پھر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا ہاں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے ، ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جعفر کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں آپ نے فرمایا ہاں اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی ، حضرت عائشہ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے ( ابن ماجہ ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا ( احمد ) اور حدیث میں ہے ، نہیں ہے الو اور نظر حق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے مسند احمد میں بھی حضرت سہل اور حضرت عامر والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے ، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور حضرت عامر پانی میں غسل کے لئے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر حضرت سہل کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سنایا آپ خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے تہمبد اونچا اٹھائے ہوئے وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی ( اللھم اصرف عنہ حشرھا و بردھا و وصبھا ) اے اللہ تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے ۔ مسند بزار میں ہے کہ میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہو گی ، فرماتے ہیں نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک میری امت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے ، ایک اور صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے ، فرمان رسالت ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کر لینا کوئی واقعیت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے ، ہاں نظر سچ ہے ، ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے ، فرمایا یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے ، آپ نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ فرمایا یوں کہو اللھم ذا السلطان العظیم ذا المن القدیم ذا الوجہ الکریم ولی الکلمات التامات والدعوت المستجابات عاف الحسن والحسین من انفس الجن واعین الانس یعنی اے اللہ اے بہت بڑی بادشاہی والے اے زبردست قدیم احسانوں والے ، اے بزرگ تر چہرے والے اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو ، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے قرآن تو اللہ ان کی طرف سے تمام عالم کے لئے نصیحت نامہ ہے ۔ الحمد للہ سورہ نون کی تفسیم ختم ہوئی ۔