Surah

Information

Surah # 69 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 78 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاِذَا نُفِخَ فِى الصُّوۡرِ نَفۡخَةٌ وَّاحِدَةٌ ۙ‏ ﴿13﴾
پس جبکہ صور میں ایک پھونک پھونکی جائے گی ۔
فاذا نفخ في الصور نفخة واحدة
Then when the Horn is blown with one blast
Pus jab kay soor mein ik phonk phonki jaey gi
پھر جب ایک ہی دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی ۔
پھر جب صور پھونک دیا جائے ایک دم ،
10پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی
پھر جب صور میں ایک مرتبہ پھونک ماری جائے گے
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :10 آگے آنے والی بات کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیے گئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے ، اور کہیں سب کو سمیٹ کر پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو یکجا بیان کر دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ نمل آیت 87 میں پہلے نفخ صور کا ذکر کیا گیا ہے جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے ۔ اس وقت نظام عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورہ حج آیات 1 ۔ 2 ، سورہ یٰسین آیات 49 ۔ 50 اور سورہ تکویر آیات 1 ۔ 6 میں بیان ہوئی ہیں ۔ سورہ زمر آیات 67 تا 70 میں دوسرے اور تیسرے نفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گر جائیں گے اور اس کے بعد جب پھر صور پھونکا جائے گا تو سب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے ۔ سورہ طٰہٰ آیات 102 تا 112 ، سورہ انبیاء آیات 101 تا 103 ، سورہ یٰسین آیات 51 تا 53 ، اور سورہ ق آیات 20 تا 22 میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 78 ۔ الحج ، حاشیہ 1 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حواشی 46 ۔ 47 ) ۔ لیکن یہاں اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخل ہونے تک قیامت کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلے میں بیان کر دیا گیا ہے ۔
آواز کا بم صور اسرافیل قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہو رہا ہے جس میں سب سے پہلے گھبراہٹ پیدا کرنے والی چیز صور کا پھونکا جانا ہو گا جس سے سب کے دل ہل جائیں گے پھر نفخہ پھونکا جائے گا جس سے تمام زمین و آسمان کی مخلوق بیہوش ہو جائے گی مگر جسے اللہ چاہے پھر صور پھونکا جائے گا جس کی آواز سے تمام مخلوق اپنے رب کے سامنے کھڑی ہو جائے گی یہاں اسی پہلے نفخہ کا بیان ہے ۔ یہاں بطور تاکید کے یہ بھی فرمایا کہ یہ اٹھ کھڑے ہونے کا نفخہ ایک ہی ہے اس لئے کہ جب اللہ کا حکم ہو گیا پھر نہ تو اس کا خلاف ہو سکتا ہے نہ وہ ٹل سکتا ہے نہ دوبارہ فرمان کی ضرورت ہے اور نہ تاکید کی ، امام ربیع فرماتے ہیں اس سے مراد آخری نفخہ ہے لیکن ظاہر قول وہی ہے جو ہم نے کہا ، اسی لئے یہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ زمین و آسمان اٹھا لئے جائیں گے اور کھال کی طرح پھیلا دیئے جائیں گے اور زمین بدل دی جائے گی اور قیامت واقع ہو جائے گی ۔ حضرت علی فرماتے ہیں آسمان ہر کھلنے کی جگہ سے پھٹ جائے گا ، جیسے سورہ نبا میں ہے آیت ( وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا 19؀ۙ ) 78- النبأ:19 ) یعنی آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے کھول دیے جائیں گے ، ابن عباس فرماتے ہیں آسمان میں سوراخ اور غاریں پڑ جائیں گی اور شق ہو جائے گی عرش اس کے سامنے ہو گا فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جو کنارے اب تک ٹوٹے نہ ہوں گے اور دوازوں پر ہوں گے آسمان کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور زمین والوں کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ پھر فرمایا قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ، پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلوں کے لئے ہو گا واللہ اعلم بالصواب ۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہوں گے ، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ایک سو سال کا راستہ ہے ، ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کی نسبت خبر دوں کہ اس کی گردن اور کان کے نیچے کے لَو کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اڑنے والا پرندہ سات سو سال تک اڑتا چلا جائے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں ، اسے امام ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہ مروی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اعلیٰ فرشتوں کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے ہر ایک حصہ کی گنتی تمام انسانوں جنوں اور سب فرشتوں کے برابر ہے ۔ پھر فرمایا قیامت کے روز تم اس اللہ کے سامنے کئے جاؤ گے جو پوشیدہ کو اور ظاہر کو بخوبی جانتا ہے جس طرح کھلی سے کھلی چیز کا وہ عالم ہے اس طرح چھپی سے چھپی چیز کو بھی وہ جانتا ہے ، اسی لئے فرمایا تمہارا کوئی بھید اس روز چھپ نہ سکے گا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے لوگو اپنی جانوں کا حساب کر لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندازہ کر لو اس سے پہلے کہ ان اعمال کا وزن کیا جائے تاکہ کل قیامت والے دن تم پر آسانی ہو جس دن کو تمہارا پورا پورا حساب لیا جائے گا اور بڑی پیشی میں خود اللہ تعالیٰ جل شانہ کے سامنے تم پیش کر دیئے جاؤ گے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگ تین مرتبہ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے پہلی اور دوسری بار تو عذر معذرت اور جھگڑا بحث کرتے رہیں گے لیکن تیسری پیشی جو آخری ہو گی اس وقت نامہ اعمال اڑائے جائیں گے ، کسی کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے حضرت عبداللہ کے قول سے بھی یہی روایت ابن جریر میں مروی ہے اور حضرت قتادہ سے بھی اس جیسی روایت مرسل مروی ہے ۔