Surah

Information

Surah # 69 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 78 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِىَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيۡنِهٖۙ فَيَقُوۡلُ هَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا كِتٰبِيَهۡ‌ۚ‏ ﴿19﴾
سو جسے اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہنے لگے گا کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو ۔
فاما من اوتي كتبه بيمينه فيقول هاؤم اقرءوا كتبيه
So as for he who is given his record in his right hand, he will say, "Here, read my record!
So jissay uska nama e amal us kay daein hath mein diya jaey ga to wo kehnay lagay ga kay lo mera nama e amal parh lo
پھر جس کسی کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ ( ٦ ) وہ کہے گا کہ : لوگو ! لو یہ میرا اعمال نامہ پڑھو ۔
تو وہ جو اپنا نامہٴ اعمال دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ( ف۲۵ ) کہے گا لو میرے نامہٴ اعمال پڑھو ،
اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا12 وہ کہے گا ” لو دیکھو ، پڑھو میرا نامہ اعمال13 ،
سو وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ ( خوشی سے ) کہے گا: آؤ میرا نامۂ اَعمال پڑھ لو
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :12 سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اس کا حساب بے باق ہے اور وہ اللہ تعالی کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے ۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامہ اعمال لے گا ، کیونکہ موت کے وقت سے میدان حشر میں حاضری تک اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہو گا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہو چکا ہو گا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے ۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بد بخت آدمی کی حیثیت سے ۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بد انسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا ۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کفار و منافقین اور مجرمین کی حالت و کیفیت کچھ اور ( تفصیلات کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الانفال ، آیت 50 ۔ النحل ، آیات 28 و 32 ، مع حاشیہ 26 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 97 ۔ جلد سوم ، طٰہٰ آیات 102 ، 103 ، 124 تا 126 ، مع حواشی 79 ، 80 ، 107 ۔ الانبیاء ، آیت 103 ، مع حاشیہ 98 ۔ الفرقان ، آیت 24 ، مع حاشیہ 38 ۔ النمل ، آیت 89 ، مع حاشیہ 109 ۔ جلد چہارم ، سبا ، آیت 51 ، مع حاشیہ 72 ۔ یٰسین ، آیات 26 ، 27 ، مع حواشی 22 ۔ 23 ۔ المومن ، آیات 45 ، 46 ، مع حاشیہ 63 ، جلد پنجم ، محمد ، آیت 27 مع حاشیہ 37 ۔ ق ، آیات 19 تا 23 ۔ مع حواشی 22 ، 23 ، 25 ۔ ) سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :13 یعنی نامہ اعمال ملتے ہی وہ خوش ہو جائے گا اور اپنے ساتھیوں کو دکھائے گا ۔ سورہ انشقاق ، آیت 9 میں بیان ہوا ہے کہ وہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹے گا ۔
دائیں ہاتھ اور نامہ اعمال یہاں بیان ہو رہا ہے کہ جو خوش نصیب لوگ قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ سعادت مند حضرات بیحد خوش ہوں گے اور جوش مسرت میں بےساختہ ہر ایک سے کہتے پھریں گے کہ میرا نامہ اعمال تو پڑھو اور یہ اس لئے کہ جو گناہ بتقاضائے بشریت ان سے ہوگئے وہ بھی ان کی توبہ سے نامہ اعمال میں سے مٹا دیئے گئے ہیں اور نہ صرف مٹا دیئے گئے ہیں بلکہ ان کے بجائے نیکیاں لکھ دی گئی ہیں ، پس یہ سراسر نیکیوں کا نامہ اعمال ایک ایک کو پورے سرور اور سچی خوشی سے دکھاتے پھرتے ہیں ، عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں ( ھا ) کے بعد لفظ ( ؤم ) زیادہ ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ ( ھاؤم ) معنی میں ( ھاکم ) کے ہے ، حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ چپکے سے حجاب میں مومن کو اس کا نامہ اعمال دیا جاتا ہے جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں یہ اسے پڑھتا ہے اور ہر ایک گناہ پر اس کے ہوش اڑ اڑ جاتے ہیں چہرے کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اتنے میں اب اس کی نگاہ اپنی نیکیوں پر پڑتی ہے جب انہیں پڑھنے لگتا ہے تب ذرا چین پڑتا ہے ہوش و حواس درست ہوتے ہیں اور چہرہ کھل جاتا ہے پھر نظریں جما کر پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی برائیاں بھی بھلائیوں سے بدل دی گئی ہیں ہر برائی کی جگہ بھلائی لکھی ہوئی ہے ، اب تو اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور خوشی خوشی نکل کھڑا ہوتا ہے اور جو ملتا ہے اس سے کہتا ہے ذرا میرا نامہ اعمال تو پڑھنا ، حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہی فرشتوں نے ان کی شہادت کے بعد غسل دیا تھا ان کے لڑکے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو قیامت والے دن اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور اس کی برائیاں اس کے نامہ اعمال کی پشت پر لکھی ہوئی ہوں گی جو اس پر ظاہر کی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ بتا کیا تو نے یہ اعمال کئے ہیں؟ وہ اقرار کرے گا کہ ہاں بیشک اللہ یہ برائیاں مجھ سے ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں بھی تجھے رسوا نہیں کیا نہ فضیحت کیا اب یہاں بھی میں تجھ سے درگزر کرتا ہوں اور تیرے تمام گناہوں کو معاف کرتا ہوں ، جب یہ اس سے فارغ ہو گا تب اپنا نامہ اعمال لے کر خوشی سے ایک ایک کو دکھاتا پھرے گا ، حضرت ابن عمر والی صحیح حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کو اپنے پاس بلائے گا اور اس سے اس کے گناہوں کی بابت پوچھے گا کہ فلاں گناہ کیا ہے؟ فلاں گناہ کیا ؟ یہ اقرار کرے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ اب ہلاک ہوا اس وقت جناب باری عز اسمہ فرمائے گا اے میرے بندے دنیا میں میں نے تیری ان برائیوں پر پردہ ڈال رکھا تھا اب آج تجھے کیا رسوا کروں جا میں نے تھے بخشا پھر اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی ہیں لکین کافروں اور منافقوں کے بارے میں تو گواہ پکار اٹھتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کے بارے میں جھوٹ کہا لوگو سنو! ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ داہنے ہاتھ کے نامہ اعمال والا کہتا ہے کہ مجھے تو دنیا میں ہی یقین کامل تھا کہ یہ حساب کا دن قطعاً آنے والا ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٢٤٩؁ ) 2- البقرة:249 ) یعنی انہیں یقین تھا کہ یہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں ۔ فرمایا ان کی جزا یہ ہے کہ یہ پسندیدہ اور دل خوش کن زندگی پائیں گے اور بلند و بالا بہشت میں رہیں گے ، جس کے محلات اونچے اونچے ہوں گے جن میں حوریں قبول صورت اور نیک سیرت ہونگی جو گھر نعمتوں کے بھرپور خزانے ہوں گے اور یہ تمام نعمتیں نہ ٹلنے والی نہ ختم ہونے والی بلکہ کمی سے بھی محفوظ ہوں گی ، ایک شیخ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اونچے نیچے مرتبے والے جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بلند مرتبہ لوگ کم مرتبہ لوگوں کے پاس ملاقات کے لئے اتر آئیں گے اور خوب محبت و اخلاص سے سلام مصافحے اور آؤ بھگت ہو گی ہاں البتہ نیچے والے بہ سبب اپنے اعمال کی کمی کے اوپر نہ چڑھیں گے ، ایک اور صحیح حدیث میں ہے جنت میں ایک سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ۔ پھر فرماتا ہے اس کے پھل نیچے نیچے ہوں گے ، حضرت براء بن عازب وغیرہ فرماتے ہیں اس قدر جھکے ہوئے ہوں گے کہ جنتی اپنے چھپر کھٹ پر لیٹے ہی لیٹے ان میوؤں کو توڑ لیا کریں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر جنتی کو اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا پروانہ ملے گا جس میں لکھا ہوا ہو گا ۔ حدیث ( بسم اللہ الرحمن الرحمیم ھذا کتاب من اللہ لفلان ابن فلان ادخلوہ جنتہ عالیتہ قطوفھا دانیتہ ) یعنی اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع یہ پروانہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں شخص کے لئے جو فلاں کا بیٹا ہے اسے بلند و بالا جھکی ہوئی شاخوں اور لدے پھندے ہوئے خوشوں والی خوشگوار جنت میں جانے دو ( طبرانی ) بعض روایتوں میں ہے یہ پروانہ پل صراط پر حوالے کر دیا جائے گا ۔ پھر فرمایا نہیں بطور احسان اور مزید لطف و کرم کے زبانی بھی کھانے پینے کی رخصت مرحمت ہو گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہے ۔ اعمال کا بدلہ کہنا صرف بطور لطف کے ہے ورنہ صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عمل کرتے جاؤ سیدھے اور قریب قریب رہو اور جان رکھو کہ صرف اعمال جنت میں لے جانے کے لئے کافی نہیں ۔ لوگ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بھی نہیں؟ فرمایا میرے بھی ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت شامل حال ہو ۔