سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :13
جس بات کو ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ یہ بات انسان کی سرشت میں ہے ۔ یا یہ انسان کی فطری کمزوری ہے ۔ اسی کو اللہ تعالی اس طرح بیان فرماتا ہے کہ انسان ایسا پیدا کیا گیا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہ راست اختیار کر لینے والے لوگوں کو اس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی آیات میں بھی آ رہا ہے ۔ اس سے یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیر و تبدل نہیں ہیں ، بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے عملاً کوشش کرے تو وہ ان کو دور کر سکتا ہے ، اور اگر وہ نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء حاشیہ 41 ۔ جلد چہارم ، الزمر حواشی 23 ۔ 28 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 75 ) ۔