Surah

Information

Surah # 72 | Verses: 28 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 40 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَّاَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰهَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِيۡدًا وَّشُهُبًا ۙ‏ ﴿8﴾
اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا ۔
و انا لمسنا السماء فوجدنها ملت حرسا شديدا و شهبا
And we have sought [to reach] the heaven but found it filled with powerful guards and burning flames.
Aur hum ney asman ko tatool ker dekha to ussy sakht chokidaron aur sakht sholon say pur paya
اور یہ کہ : ہم نے آسمان کو ٹٹولنا چاہا تو ہم نے پایا کہ وہ بڑے سخت پہرے داروں اور شعلوں سے بھرا ہوا ہے ۔ ( ٦ )
اور یہ کہ ہم نے آسمان کو چھوا ( ف۱٤ ) تو اسے پایا کہ ( ف۱۵ ) سخت پہرے اور آگ کی چنگاریوں سے بھردیا گیا ہے ( ف۱٦ )
اور یہ کہ ” ہم نے آسمان کوٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے ۔ ”
اور یہ کہ ہم نے آسمانوں کو چھوا ، اور انہیں سخت پہرہ داروں اور ( اَنگاروں کی طرح ) جلنے اور چمکنے والے ستاروں سے بھرا ہوا پایا
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جنات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں پر جاتے کسی جگہ بیٹھتے اور کان لگا کر فرشتوں کی باتیں سنتے اور پھر آ کر کاہنوں کو خبر دیتے تھے اور کاہن ان باتوں کو بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اپنے ماننے والوں سے کہتے ، اب جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور آپ پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو آسمان پر زبردست پہرے بٹھا دیئے گئے اور ان شیاطین کو پہلے کی طرح وہاں جا بیٹھنے اور باتیں اڑا لانے کا موقعہ نہ رہا ، تاکہ قرآن کریم اور کاہنوں کا کلام خلط ملط نہ ہو جائے اور حق کے متلاشی کو دقت واقع نہ ہو ۔ یہ مسلمان جنات اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ پہلے تو ہم آسمان پر جا بیٹھتے تھے مگر اب تو سخت پہرے لگے ہوئے ہیں اور آگ کے شعلے تاک لگائے ہوئے ہیں ایسے چھوٹ کر آتے ہیں کہ خطاہی نہیں کرتے جلا کر بھسم کر دیتے ہیں ، اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سے حقیقی مراد کیا ہے؟ اہل زمین کی کوئی برائی چاہی گئی ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب کا ارادہ نیکی اور بھلائی کا ہے ، خیال کیجئے کہ یہ مسلمان جن کس قدر ادب داں تھے کہ برائی کی اسناد کے لئے کسی فاعل کا ذکر نہیں کیا اور بھلائی کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور کہا کہ دراصل آسمان کی اس نگرانی اس حفاظت سے کیا مطلب ہے ، اسے ہم نہیں جانتے ۔ اسی طرح حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ الٰہی تیری طرف سے شر اور برائی نہیں ، ستارے اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جھڑتے تھے لیکن اس طرح کثرت سے ان کا آگ برسانا قرآن کریم کی حفاظت و صیانت کے باعث ہوا تھا ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور بڑی روشنی ہو گئی تو آپ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ پہلے اسے جھڑتا دیکھ کر تم کیا کہا کرتے تھے؟ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال تھا کہ یا تو یہ کسی برے آدمی کے تولد پر ٹوٹتا ہے یا کسی بڑے کی موت پر ، آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی کام کا آسمان پر فیصلہ کرتا ہے ، الخ ۔ یہ حدیث پورے طور پر سباء کی تفسیر میں گذر چکی ہے ۔ دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا ، جنات کا ان سے ہلاک ہونا ، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا ، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا چنانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گذر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے ، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہوگئے ، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا ، سورہ احقاف کی آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀ ) 46- الأحقاف:29 ) میں اس کا پورا بیان گذر چکا ہے ، ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے لئے بھی ایک خوفناک علامت تھی ، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور عموماً انبیاء کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا ، حضرت سدی فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمانی بیٹھوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس کی باتیں اڑا لایا کرتے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنائے گئے تو ایک رات ان شیاطین پر بڑی شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہوگئے انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں ، شعلے اڑ رہے ہیں اور دور دور تک تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں انہوں نے اپنے غلام آزاد کرنے ، اپنے جانور راہ اللہ چھوڑنے شروع کر دیئے آخر عبد یا لیل بن عمرہ بن عمیر نے ان سے کہا کہ اے طائف والو تم کیوں اپنے مال برباد کر رہے ہو؟ تم نجوم دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ انتظامات صرف ابن ابی کبشہ کے لئے ہو رہے ہیں ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ) اور اگر تم دیکھو کہ فی الحقیقت ستارے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تو بیشک اہل آسمان کو ہلاک شدہ مان لو ، انہوں نے سونگھی اور سونگھ کر بتایا کہ اس کا انقلاب سبب مکہ میں ہے ، سات جنات نصیبین کے رہنے والے مکہ پہنچے یہاں حضور علیہ السلام مسجد حرام میں نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے جس سن کر ان کے دل نرم ہوگئے بہت ہی قریب ہو کر قرآن سنا پھر اس کے اثر سے مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام دی ، الحمد اللہ ہم نے اس تمام واقعہ کو پورا پورا اپنی کتاب السیرت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آغاز کے بیان میں لکھا ہے واللہ اعلم ۔