Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
ثُمَّ اِنَّ عَلَيۡنَا بَيَانَهٗؕ‏ ﴿19﴾
پھر اس کا واضح کر دینا ہمارا ذمہ ہے ۔
ثم ان علينا بيانه
Then upon Us is its clarification [to you].
Phir is ka wazeh ker dyna hamary zimy hay
پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ ( ٨ )
پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے ،
پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے13 ۔ ۔ ۔ ۔
پھر بے شک اس ( کے معانی ) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :13 اس سے گمان ہوتا ہے ، اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اس گمان کا اظہار کیا ہے ، کہ غالباً ابتدائی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کے دوران ہی میں قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے ۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف ہدایت کی گئی کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں ، اور نہ صرف اطمینان دلایا گیا کہ اس کا لفظ لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اسی طرح پڑھ سکیں گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے ، بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہر حکم اور ہر ارشاد کا منشا اور مدعا بھی پوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا ۔ یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصولی باتیں ثابت ہوتی ہیں جنہیں اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو ان گمراہیوں سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں اور آج بھی پھیلا رہے ہیں ۔ اولاً ، اس سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے ، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین ، اس کے اشارات ، اس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا جو مفہوم و مدعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ، کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا ۔ لہذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالب قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالی کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہرحال الفاظ قرآن کے ماسوا تھی ۔ یہ وحی خفی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے ( قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب سنت کی آئینی حیثیت میں صفحات 94 ۔ 95 ۔ اور صفحات 118 تا 125 میں پیش کر دیے ہیں ) ۔ ثانیاً ، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کے احکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تھی آخر اسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اس کے مطابق لوگوں کو قرآن سمجھائیں اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھائیں ۔ اگر یہ اس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں تو یہ ایک بےکار کام تھا ، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں اس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی ۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تشریحی علم سرے سے کوئی شریعی حیثیت نہ رکھتا تھا ۔ اللہ تعالی نے خود سورہ نحل آیت 44 میں فرمایا ہے وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ۔ اور اے نبی ، یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تو لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ 40 ) ۔ اور قرآن میں چار جگہ اللہ تعالی نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اس کی تعلیم دینا بھی تھا ۔ ( البقرہ ، آیات 129 و 151 ، آل عمران ، 164 ۔ الجمعہ ، 2 ۔ ان سب آیات کی تشریح ہم سنت کی آئینی حیثیت میں صفحہ 74 سے 77 تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں ) ۔ اس کے بعد کوئی ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند ، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے فرما دی ہے ، کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں ہے بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے ۔ اس کو چھوڑ کر یا اس سے ہٹ کر جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیان کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صاحب ایمان آدمی نہیں کر سکتا ۔ ثالثاً ، قرآن کا سرسری مطالعہ بھی اگر کسی شخص نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جنہیں ایک عربی داں آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جان سکتا کہ ان کا حقیقی مدعا کیا ہے اور ان میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے ۔ مثال کے طور پر لفظ صلوۃ ہی کو لے لیجئے ۔ قرآن مجید میں ایمان کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے تو وہ صلوۃ ہے ۔ لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعین نہیں کر سکتا ۔ قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد غالباً کوئی خاص فعل ہے جسے انجام دینے کا اہل ایمان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ لیکن صرف قرآن کو پڑھ کر کوئی عربی داں یہ طے نہیں کر سکتا کہ وہ خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلم کو مقرر کر کے ا پنی اس اصطلاح کا مفہوم اسے ٹھیک ٹھیک نہ بتایا ہوتا اور صلوۃ کے حکم کی تعمیل کرنے کا طریقہ پوری وضاحت کے ساتھ اسے نہ سکھا دیا ہوتا تو کیا صرف قرآن کو پڑھ کر دنیا میں کوئی دو مسلمان بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکم صلوۃ پر عمل کرنے کی کسی ایک شکل پر متفق ہو جاتے؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان نسل در نسل ایک ہی طرح جو نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں ، اور دنیا کے ہر گوشے میں کروڑوں مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں عمل کر رہے ہیں ، اس کی وجہ یہی تو ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی آپ کو پوری طرح سمجھا دیا تھا ، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ ان سب لوگوں کو دیتے چلے گئے جنہوں نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا ۔ رابعاً ، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے اس کی جو تعلیم امت کو دی ، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنت کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق سند کے ساتھ اگلوں سے پچھلوں تک منتقل ہوئیں ۔ اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و عملی تعلیم سے مسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رائج ہوا ، جس کی تفصیلات معتبر روایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کو اگلی نسلوں سے ملیں ، اور بعد کی نسلوں نے اگلی نسلوں میں اس پر عملدرآمد ہوتے بھی دیکھا ۔ اس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخص انکار کرتا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے ثم ان علینا بیانہ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمہ داری لی تھی اسے پورا کرنے میں معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا ، کیونکہ یہ ذمہ داری محض رسول کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھانے کے لیے نہیں لی گئی تھی ، بلکہ اس غرض کے لیے لی گئی تھی کہ رسول کے ذریعہ پوری امت کو کتاب الہی کا مطلب سمجھایا جائے ، اور حدیث و سنت کے ماخد قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آ جاتا ہے کہ اللہ تعالی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر سکا ہے ، اعاذنا اللہ من ذالک ۔ اس کے جواب میں جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ بھی تو لی تھیں اس سے ہم کہیں گے کہ حدیثوں کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغاز اسلام میں پوری امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو ۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا ؟ پھر ایسی بات کہنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اس امت نے اول روز سے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاک نے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے ، اور جتنا جتنا غلط باتوں کے اس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اس امت کے خیر خواہ اس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیز کیا جائے ۔ صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا ، سخت بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں آ کر حدیث و سنت کو ناقابل اعتبار ٹھیراتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی اس جاہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں ۔