Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَتَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ ؕ‏ ﴿21﴾
اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو ۔
و تذرون الاخرة
And leave the Hereafter.
Aur akhrat ko chor bethy ho
اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو ۔
اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو ،
اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو15 ۔
اور تم آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :15 یہ انکار آخرت کی دوسری وجہ ہے ۔ پہلی وجہ آیت نمبر 5 میں بیان کی گئی تھی کہ انسان چونکہ فجور کی کھلی چھوٹ چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازماً اس پر عائد ہوتی ہیں ، اس لیے دراصل خواہشات نفس اسے انکار آخرت پر ابھارتی ہیں اور پھر وہ عقلی دلیلیں بگھارتا ہے تاکہ اپنے اس انکار کو معقول ثابت کرے ۔ اب دوسری وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ منکرین آخرت چونکہ تنگ نظر اور کوتاہ ہیں اس لیے ان کی نگاہ میں ساری اہمیت انہی نتائج کی ہے جو اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان نتائج کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے جو آخرت میں ظاہر ہونے والے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو فائدہ یا لذت یا خوشی یہاں حاصل ہو جائے اسی کی طلب میں ساری محنتیں اور کوششیں کھپا دینی چاہیں کیونکہ اسے پا لیا تو گویا سب کچھ پا لیا ، خواہ آخرت میں اس کا انجام کتنا ہی بڑا ہو ۔ اسی طرح ان کا خیال یہ ہے کہ جو نقصان یا تکلیف یا رنج و غم یہاں پہنچ جائے وہی دراصل بچنے کے قابل چیز ہے ، قطع نظر اس سے کہ اس کی برداشت کر لینے کا کتنا ہی بڑا اجر آخرت میں مل سکتا ہو ۔ وہ نقد سودا چاہتے ہیں ۔ آخرت جیسی دور کی چیز کے لیے وہ نہ آج کے کسی نفع کو چھوڑ سکتے ہیں نہ کسی نقصان کو گوارا کر سکتے ہیں ۔ اس انداز فکر کے ساتھ جب وہ آخرت کے مسئلے پر عقلی بحثیں کرتے ہیں تو دراصل وہ خالص عقلیت نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے یہ انداز فکر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بہرحال یہی ہوتا ہے کہ آخرت کو نہیں ماننا ہے ، خواہ اندر سے ان کا ضمیر پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ آخرت کے امکان و قوع اور وجوب کی دلیلیں قرآن میں دی گئی ہیں وہ نہایت معقول ہیں اور اس کے خلاف جو استدلال وہ کر رہے ہیں وہ نہایت بودا ہے ۔