Surah

Information

Surah # 78 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 80 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا الرَّحۡمٰنِ‌ لَا يَمۡلِكُوۡنَ مِنۡهُ خِطَابًا‌ ۚ‏ ﴿37﴾
۔ ( اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے ۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا ۔
رب السموت و الارض و ما بينهما الرحمن لا يملكون منه خطابا
[From] the Lord of the heavens and the earth and whatever is between them, the Most Merciful. They possess not from Him [authority for] speech.
( Is rab ki taraf say milay ga jo kay ) asmano ka aur zameen ka aur jo kuch in kay dermiyan hay inka perwardigar hay aur bari bakhsish kernay wala hay kisi ko is say bat chet kerney ka ikhtyar nahi hoga
################
وہ جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے رحمن کہ اس سے بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے ( ف۳۰ )
اس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں23 ۔
۔ ( وہ ) آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ( سب ) کا پروردگار ہے ، بڑی ہی رحمت والا ہے ( مگر روزِ قیامت اس کے رعب و جلال کا عالم یہ ہوگا کہ ) اس سے بات کرنے کا ( مخلوقات میں سے ) کسی کو ( بھی ) یارا نہ ہوگا
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :23 یعنی میدان حشر میں دربار الہی کے رعب کا یہ عالم ہو گا کہ اہل زمین ہوں یا اہل آسمان ، کسی کی بھی یہ مجال نہ ہو گی کہ از خود اللہ تعالی کے حضور زبان کھول سکے ، یا عدالت کے کام میں مداخلت کر سکے ۔
روح الامین علیہ السلام اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے ، وہ رحمان ہے ، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے ، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ٢٥٥؁ ) 2- البقرة:255 ) یعنی کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان ، یا مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ، حضرت جبرائیل کو اور جگہ بھی روح کہا گیا ہے ، ارشاد ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣؀ۙ ) 26- الشعراء:193 ) ، اسے امانت دار روح نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ، یہاں مراد سے یقینا حضرت جبرائیل ہیں حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ تمام فرشتوں سے بزرگ ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں ، یا مراد روح سے قرآن ہے ، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا 52؀ۙ ) 42- الشورى:52 ) یعنی ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری یہاں روح سے مراد قرآن ہے ، چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے ، تمام آسمانوں کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے ، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا ۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ، طبرانی میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں بھی کلام ہے ، ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہو ، اور بھی بنی اسرائیل سے لیا ہوا ، واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد کل انسان ہیں واللہ اعلم پھر فرمایا صرف وہی اس دن بات کر سکے گا جسے وہ رحمٰن اجازت دے جیسے فرمایا آیت ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ١٠٥؁ ) 11-ھود:105 ) یعنی جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کر سکے گا صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کر سکے گا ، پھر فرمایا کہ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو ، سب سے زیادہ حق بات لا الہ الا اللہ ہے ، پھر فرمایا کہ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے ، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے ، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کر دیا ہے ، آنے والی چیز تو آ گئی ہوئی سمجھنی چاہئے ، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے جیسے فرمایا آیت ( ووجدوا ما عملوا حاضرا جو کیا اسے سامنے پا لیں گے اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا ، اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا ، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصب ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں ، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے ، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا حضور کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی یہی مروی ہے ، الحمد اللہ سورہ نباء کی تفسیم ختم ہوئی ۔