Surah

Information

Surah # 79 | Verses: 46 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 81 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاَهۡدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخۡشٰى‌ۚ‏ ﴿19﴾
اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو ( اس سے ) ڈرنے لگے ۔
و اهديك الى ربك فتخشى
And let me guide you to your Lord so you would fear [Him]?'"
Aur yeh ky mein tujhhy terey Rab ki rah dikhata takay tu ( uss say ) darnay lagy
اور یہ کہ میں تمہیں تمہارے پروردگار کا راستہ دکھاؤں تو تمہارے دل میں خوف پیدا ہوجائے؟
۔ ( ۱۹ ) اور تجھے تیرے رب کی طرف ( ف۲۲ ) راہ بتاؤں کہ تو ڈرے ( ف۲۳ )
اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو ﴿اس کا ﴾ خوف تیرے اندر پیدا8 ہو؟
اور ( کیا تو چاہتا ہے کہ ) میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تاکہ تو ( اس سے ) ڈرنے لگے
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :8 یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیں: ( 1 ) حضرت موسی کو منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں ان کے اور اللہ کے درمیان ہوئی تھیں ان کو قرآن مجید میں حسب موقع کہیں مختصر اور کہیں مفصل بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں موقع اختصار کا طالب تھا ، اس لیے ان کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سورۃ طہٰ ، آیات 9 تا 48 ، سورۃ شعراء آیات 10 تا 17 ، سورہ نمل ، آیات 7 تا 12 ، اور سورہ قصص ، آیات 29 تا 35 میں ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔ ( 2 ) فرعون کی جس سرکشی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق ، دونوں کے مقابلے میں سرکشی کرنا ہے ۔ خالق کے مقابلے میں اس سرکشی کا ذکر تو آگے آ رہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔ اور خلق کے مقابلے میں اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں بانٹ رکھا تھا ، کمزور طبقوں پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا ، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا ، جیسا کہ سورہ قصص آیت 4 اور سورہ زخرف آیت 54 میں بیان کیا گیا ہے ۔ ( 3 ) حضرت موسی علیہ السلام کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی ، تم اور ہارون دونوں بھائی اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور خدا سے ڈرے ۔ ( طہٰ ، آیت 44 ) اس نرم کلام کا ایک نمونہ تو ان آیات میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے ۔ دوسرے نمونے سورہ ، آیات 49 تا 52 ، الشعراء ، 23 تا 28 ، اور القصص ، آیت 37 میں دیے گئے ہیں ۔ یہ منجملہ ان آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکمتِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے ۔ ( 4 ) حضرت موسی صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے ، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، بلکہ ان کی بعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں ایک مسلمان قوم تھے ) اس کی غلامی سے چھڑا کر مصر سے نکلال لائیں ۔ یہ بات ان آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے ، کیونکہ ان میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے سامنے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان مقامات سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جہاں حضرت موسی نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے ۔ مثلا ملاحظہ ہو ( الاعراف ، آیات 104 تا 105 ۔ طہٰ ، آیات 47 تا 52 ۔ الشعراء ، آیات 16 ۔ 17 ۔ و 23 تا 28 ) ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 74 ) ۔ ( 5 ) یہاں پاکیزگی ( تزکی ) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کرنا یا دوسرے الفاظ میں اسلام قبول کر لینا ہے ۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآن مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں ۔ و ذلک جزاؤ من تزکی ، اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے ۔ یعنی اسلام لائے ۔ وما یدریک لعلہ یزکی ، اور تمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے ۔ یعنی مسلمان ہو جائے ۔ وما علیک الا یزکی ، اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے ۔ یعنی مسلمان نہ ہو ۔ ( ابن جریر ) ( 6 ) یہ ارشاد کہ میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو ( اس کا خوف ) تیرے دل میں پیدا ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تو اس کا بندہ ہے ، مردِ آزاد نہیں ہے ، تو لازماً تیرے دل میں اس کا خوف پیدا ہو گا ، اور خوف خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں آدمی کے رویے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے ۔ خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔