سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :13
اب قیامت اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں ۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :14
تخلیق سے مراد انسانوں کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جس میں بے شمار ستارے اور سیارے ، بے حد و حساب شمسی نظام اور ان گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑی ہی امر محال سمجھتے ہو ، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں تک بوسیدہ ہو چکی ہوں گی اس حالت میں ہمارے پراگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں اور ان میں جان ڈال دی جائے ، کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اس عظیم کائنات کا بنانا زیادہ سخت مشکل کام ہے یا تمہیں ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اسی شکل میں پیدا کر دینا ؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے ( آخر یہ کیوں ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے ۔ مثلاً سورۃ یسین میں ہے اور کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو بنایا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو ( پھر سے ) پیدا کر دے؟ کیوں نہیں ، وہ تو بڑا زبردست خالق ہے ، تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے ( آیت 81 ) ۔ اور سورہ مومن میں فرمایا یقیناً آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر جانتے نہیں ہیں ( آیت 57 ) ۔