Surah

Information

Surah # 79 | Verses: 46 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 81 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَالۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِكَ دَحٰٮهَا ؕ‏ ﴿30﴾
اوراس کے بعد زمین کو ( ہموار ) بچھا دیا ۔
و الارض بعد ذلك دحىها
And after that He spread the earth.
Aur is kay baad zameen ko ( humwaar ) bicha diya
اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا ہے ۔
۔ ( ۳۰ ) اور اس کے بعد زمین پھیلائی ( ف۳٦ )
اس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا16 ،
اور اُسی نے زمین کو اِس ( ستارے: سورج کے وجود میں آجانے ) کے بعد ( اِس سے ) الگ کر کے زور سے پھینک دیا ( اور اِسے قابلِ رہائش بنانے کے لئے بچھا دیا )
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :16 اس کے بعد زمین کو بچھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالی نے زمین پیدا کی ، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں پھر یہ بات غور طلب ہے اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات ، بلکہ مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں ۔ اس طرز بیان کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ مثلاً سورہ قلم میں فرمایا عتل بعد ذلک زنیم جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے ۔ اسی طرح سورہ بلد میں فرمایا فک رقبۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثم کان من الذین امنو ۔ غلام آزاد کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایمان لانے والوں میں سے ہو ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے ، پھر ایمان لائے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور آسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے سورہ بقرہ آیت 29 میں ہے ۔ اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے ۔ ان مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنایا گیا اور کسے بعد میں ، بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ، اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے ۔ جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، حمٰ السجدہ ، حواشی 13 ۔ 14 ) ۔