سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :14
اس مقام پر بزگ پیغامبر ( رسول کریم ) سے مراد وحی لانے والا فرشتہ ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے بصراحت معلوم ہو رہا ہے ۔ اور قرآن کو پیغام بر کا قول کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اس فرشتے کا اپنا کلام ہے ، بلکہ قول پیغامبر کے الفاظ خود ہی یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ اس ہستی کا کلام ہے جس نے اسے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے ۔ سورہ الحاقۃ آیت 40 میں اسی طرح قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہا گیا ہے اور وہاں بھی مراد یہ نہیں ہے کہ یہ حضور کا اپنا تصنیف کردہ ہے بلکہ اسے رسول کریم کا قول کہہ کر وضاحت کردی گئی ہے کہ اس چیز کو حضور خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں نہ کہ محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے ۔ دونوں جگہ قول کو فرشتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ اللہ کا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیغام لانے والے فرشتے کی زبان سے ، اور لوگوں کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہو رہا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد ششم ، الحاقہ ، حاشیہ 22 ) ۔