Surah

Information

Surah # 86 | Verses: 17 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 36 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : پہلی ہی آیت کے لفظ الطارق کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کے مضمون کا انداز بیاں مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں سے ملتا جلتا ہے ، مگر یہ اس زمانے کی نازل شدہ ہے جب کفار مکہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے ہر طرح کی چالیں چل رہے تھے ۔ موضوع اور مضمون : اس میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ انسان کو مرنے کے بعد خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔ دوسرے یہ کہ قرآن ایک قول فیصل ہے جسے کفار کی کوئی چال اور تدبیر زک نہیں دے سکتی ۔ سب سے پہلے آسمان کے تاروں کو اس بات کی شہادت میں پیش کیا گیا ہے کہ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک ہستی کی نگہبانی کے بغیر اپنی جگہ قائم اور باقی رہ سکتی ہو ۔ پھر انسان کو خود اس کی اپنی ذات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح نطفے کی ایک بوند سے اس کو وجود میں لایا گیا اور جیتا جاگتا انسان بنا دیا گیا ۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ جو خدا اس طرح اسے وجود میں لایا ہے وہ یقیناً اس کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے ، اور یہ دوبارہ پیدائش اس غرض کے لیے ہوگی کہ انسان کے ان تمام رازوں کی جانچ پڑتال کی جائے جن پر دنیا میں پردہ پڑا رہ گیا تھا ۔ اس وقت اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے سے انسان نہ اپنے بل بوتے پر بچ سکے گا اور نہ کوئی اس کی مدد کو آ سکے گا ۔ خاتمۂ کلام پر ارشاد ہوا ہے کہ جس طرح آسمان سے بارش کا برسنا اور زمین سے درختوں اور فصلوں کا اگنا کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ کام ہے ، اسی طرح قرآن میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ بھی کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے بلکہ پختہ اور اٹل باتیں ہیں ۔ کفار اس غلط فہمی میں ہیں کہ ان کی چالیں اس قرآن کی دعوت کو زک دے دیں گی ، مگر انہیں خبر نہیں ہے کہ اللہ بھی ایک تدبیر میں لگا ہوا ہے اور اس کی تدبیر کے آگے کفار کی چالیں سب دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ پھر ایک فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تسلی اور درپردہ کفار کو یہ دھمکی دے کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا صبر سے کام لیں اور کچھ مدت کفار کو اپنی سی کر لینے دیں ، زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ان کی چالیں قرآن کو زک دیتی ہیں یا قرآن اسی جگہ غالب آ کر رہتا ہے جہاں یہ اسے زک دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
مسند احمد میں ہے کہ خالد بن ابو حبل عدوانی نے ثقیف قبیلے کی مشرق کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لکڑی پر یا کمان پر ٹیک لگائے ہوئے اس پوری سورت کو پڑھتے سنا جبکہ آپ ان لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لیے یہاں آئے تھے حضرت خالد نے اسے یاد کر لیا جب یہ ثقیف کے پاس واپس آئے تو ثقیف نے ان سے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ بھی اس وقت مشرک تھے انہوں نے بیان کیا تو جتنے قریش وہاں تھے جلدی سے بول پڑے کہ اگر یہ حق ہوتا تو کیا اب تک ہم نہ مان لیتے ، نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مغرب کی نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء پڑھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ کیا تو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟ کیا تجھے یہ کافی نہ تھا کہ آیت ( وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ Ǻ۝ۙ ) 86- الطارق:1 ) اور ( وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا Ǻ۝۽ ) 91- الشمس:1 ) اور ایسی ہی اور سورتیں پڑھ لیتا ۔