Surah

Information

Surah # 89 | Verses: 30 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 10 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰٮهُ رَبُّهٗ فَاَكۡرَمَهٗ وَنَعَّمَهٗ  ۙ فَيَقُوۡلُ رَبِّىۡۤ اَكۡرَمَنِؕ‏ ﴿15﴾
انسان ( کا یہ حال ہے کہ ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا ۔
فاما الانسان اذا ما ابتلىه ربه فاكرمه و نعمه فيقول ربي اكرمن
And as for man, when his Lord tries him and [thus] is generous to him and favors him, he says, "My Lord has honored me."
Insan ( ka yeh hal hay kay ) jab ussy us ka rab azmata hay aur izat o neymat dyta hay to wo khyney lagta hay kay mery rab nay mujhy izat dar banadiya
لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا پروردگار اسے آزماتا ہے اور انعام و اکرام سے نوازتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے میری عزت کی ہے ۔
( ۱۵ ) لیکن آدمی تو جب اسے اس کا رب آزمائے کہ اس کو جاہ اور نعمت دے ، جب تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دی ،
مگر 8 انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا ۔
مگر انسان ( ایسا ہے ) کہ جب اس کا رب اسے ( راحت و آسائش دے کر ) آزماتا ہے اور اسے عزت سے نوازتا ہے اور اسے نعمتیں بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھ پر کرم فرمایا
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :8 اب لوگوں کی عام اخلاقی حالت پر تنقید کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی زندگی میں یہ رویہ جن انسانوں نے اختیار کر رکھا ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ ان سے کبھی باز پرس نہ ہو ، اور اس بات کو عقل و اخلاق کا تقاضا کیسے مانا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے جب انسان دنیا سے رخصت ہو جائے تو اسے کسی جزا اور سزا سے سابقہ پیش نہ آئے ۔
وسعت رزق کو اکرام نہ سمجھو بلکہ امتحان سمجھو مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے ایحسبون انما نمدھم الخ یعنی مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسی لیے یہاں کلا کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس پر تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کامدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گذاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا ، حدیث میں ہے کہ سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگی اٹھا کر فرمایا میں اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس یطرح ہوں گے یعنی قریب قریب ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا آپ نے فرمایا اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے پھر فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں مسکینوں کے ساتھ سلوک احسان کرنے انہیں کھانا پینا دینے کی ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال و حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بیحد ہے ۔