Surah

Information

Surah # 90 | Verses: 20 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 35 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَةَ ۖ‏ ﴿11﴾
سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔
فلا اقتحم العقبة
But he has not broken through the difficult pass.
So issy na hosakha kay ghatti mein dakhil hota
پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا ۔ ( ٧ )
( ۱۱ ) پھر بےتامل گھاٹی میں نہ کودا ( ف۱۳ )
مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی11 ۔
وہ تو ( دینِ حق اور عملِ خیر کی ) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :11 اصل الفاظ ہیں فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ اقتحام کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی سخت اور مشقت طلب کام میں ڈالنا ۔ اور عقبہ اس دشوار گزار راستے کو کہتے ہیں جو بلندی پر جانے کے لیے پہاڑوں میں سے گزرتا ہے ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دو راستے جو ہم نے اسے دکھائے ان میں سے ایک بلندی کی طرف جاتا ہے مگر مشقت طلب اور دشوار گزار ہے ۔ اس میں آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے اور شیطان کی ترغیبات سے لڑ کر چلنا پڑتا ہے ۔ اور دوسرا آسان راستہ ہے جو کھڑوں میں اترتا ہے ، مگر اس سے پستی کی طرف جانے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ بس اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دینا کافی ہے ، پھر آدمی خود نشیب کی طرف لڑھکتا چلا جاتا ہے ۔ اب یہ آدمی جس کو ہم نے دونوں راستے دکھا دیے تھے ، اس نے ان میں سے پستی کی جانب جانے والے راستے کو اختیار کر لیا اور اس مشقت طلب راستے کو چھوڑ دیا جو بلندی کی طرف جانے والا ہے ۔
صدقات اور اعمال صالحہ جہنم سے نجات کے ضامن ہیں: حضرت ابن عمر فرماتے ہیں عقبہ جہنم کے ایک پھسلنے پہاڑ کا نام ہے حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس کے جہنم میں ستر درجے ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ یہ داخلے کی سخت گھاٹی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے داخل ہو جاؤ پھر اسکا داخلہ بتایا یہ کہہ کر کہ تمہیں کس نے بتایا کہ یہ گھاٹی کیا ہے؟ تو فرمایا غلام آزاد کرنا اور اللہ کے نام کھانا دینا ابن زید فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ نجات اور خیر کی راہوں میں کیوں نہ چلا ؟ پھر ہمیں تنبیہ کی اور فرمایا تم کیا جانو عقبہ کیا ہے؟ آزادگی گردن یا صدقہ طعام فک رقبتہ جو اضافت کے ساتھ ہے اسے فک رقبتہ بھی پڑھا گیا یعنی فلع فاعل دونوں قرأتوں کا مطلب قریبا ایک ہی ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی مسلمانکی گردن چھڑوائے اللہ تعالیٰ اس کاہر ایک عضو اس کے ہر عضو کے بدلے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے یہاں تک کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ حضرت علی بن حسین یعنی امام زید العابدین نے جب یہ حدیث سنی تو سعید بن مرجانہ راوی حدیث سے پوچھا کہ کیا تم نے خود حضرت ابو ہریرہ کی زبانی یہ حدیث سنی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں تو آپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ مطرف کو بلا لو جب وہ سامنے آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ تم اللہ کے نام پر آزاد ہو بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ یہ غلام دس ہزار درہم کا خریدا ہوا تھا اور حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اس کی ایک ایک ہڈی کے بدلے اس کی ایک ایک ہڈی جہنم سے آزاد ہو جاتی ہے ( ابن جریر ) مسند میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور جو مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے اور اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو اسے قیامت کے دن نور ملے گا ۔ اور روایت میں یہ بھی ہے کہجو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے خواہ وہ لگے یا نہ لگے اسے اولاد اسمٰعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور حدیث میں ہے جس مسلمان کے تین بچے بلوغت سے پہلے مر جائیں اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کریگا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑے دے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا جس سے چاہے چلا جائے ان تمام احادیث کی سندیں نہایت عمدہ ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت واثلہ بن اسقع سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جس میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے تم میں سے کوئی پڑھے اور اس کا قرآن شریف اس کے گھر میں ہو تو کیا وہ کمی زیادتی کرتا ہے؟ ہم نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث ہمیں سناؤ ، آپ نے فرمایا ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کے بارے میں حاضر ہوئے جس نے قتل کی وجہ سے اپنے اوپر جہنم واجب کر لی تھی تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے غلام آزاد کرو ، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا ، یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ، اور حدیث میں ہے جو شخص کسی کی گردن آزاد کرائے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے ۔ ایسی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا کام بتادیجئے جس سے میں جنت میں جا سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھوڑے سے الفاظ میں بہت ساری باتیں تو پوچھ بیٹھا ۔ نسمہ آزاد کر ، رقبتہ چھڑا ، اس نے کہا حضرت کیا یہ دونوں ایک چیز نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادی کے معنی تو ہیں اکیلا ایک غلام آزاد کرے اور فک رقبۃٍکے معنی ہیں کہ تھوڑی بہت مدد کرے دودھ والا جانور دودھ پینے کے لیے کسی مسکین کو دینا ، ظالم رشتہ دار سے نیک سلوک کرنا ، یہ جنت کے کام ہیں ، اگر اس کی تجھے طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلا ، پیاسے کو پلا ، نیکیوں کا حکم کر ، برائیوں سے روک ، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سوائے بھلائی کے اور نیک بات کے اور کوئی کلمہ زبان سے نہ نکال ۔ ذی مسغبۃٍ کے معنی ہیں بھوک والا ، جبکہ کھانے کی اشتہا ہو ، غرض بھوک کے وقت کا کھلانا اور وہ بھی اسے جو نادان بچہ ہے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اور اس کا رشتہ دار بھی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مسکین کو صدقہ دینا اکہرا ثواب رکھتا ہے ، اور رشتے ادر کو دینا دوہرا اجر دلواتا ہے ، ( مسند احمد ) یا ایسے مسکین کو دینا جو خاک آلود ہو ، راستے میں پڑا ہوا ہو گھر ورنہ ہو ، بربستر نہ ہو ، بھوک کی وجہ سے پیٹھ زمین دوز ہو رہی ہو ، اپنے گھر سے دور ہو ، مسافرت میں ہو ، فقیر ، مسکین ، محتاج ، مقروض ، مفلس ہو کوئی پرسان حال بھی نہ ہو ، اہل و عیال والا ہو ، یہ سب معنی قریب قریب ایک ہی ہیں ، پھر یہ شخص باوجود ان نیک کاموں کے دل میں ایمان رکھتا ہو ان نیکیوں پر اللہ سے اجر کا طالب ہو جیسے اور جگہ ہے من ارادالاٰخرۃ الخ جو شخص آخرت کا ارادہ رکھے اور اس کے لیے کوشش کرے اور ہو بھی بایمان تو ان کی کوشش اللہ کے ہاں مشکورہے اور جگہ ہے ۔ من عمل صالحا من ذکر اوانثی الخ ، ایمان والوں میں سے جو مرد عورت مطابق سنت عمل کرے یہ جنت میں جائیں گے اور وہاں بےحساب روزیاں پائیں گے پھر ان کا وصف بیان ہو رہا ہے کہ لوگوں کے صدمات سہنے اور ان پر رحم و کرم کرنے کی یہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا اور حدیث میں ہے جو رحم نہ کرے اس پر رحم نہیں کیا جاتا ، ابو داؤد میں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ سمجھے وہ ہم میں سے نہیں ، پھر فرمایا کہ یہ لوگ وہ ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں اعمالنامہ دیا جائے گا اور ہماری آیتوں کے جھٹلانے والوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا ، اور سر بند تہہ بہ تہہ آگ میں جائیں گے ، جس سے نہ کبھی چھٹکارا ملے گا نہ نجات نہ راحت نہ آرام ، اس آگ کے دروازے ان پر بند رہیں گے مزید بیان اس کا سورہ ویل لکل الخ ، میں آئے گا انشاء اللہ ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں روشنی ہو گی نہ سوراخ ہو گا نہ کبھی وہاں سے نکلنا ملے گا ، حضرت ابو عمران جوئی فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا اللہ حکم دے گا اور ہر سرکش کو ، ہر ایک شیطان کو اور ہر اس شخص کو جس کی شرارت سے لوگ دنیا میں ڈرتے رہتے تھے ۔ لوہے کی زنجیروں سے مضبوط باندھ دیا جائے گا ، پھر جہنم میں جھونک دیا جائے گا پھر جہنم بند کر دی جائے گی ۔ اللہ کی قسم کبھی ان کے قدم ٹکیں گے ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی آسمان کی صورت ہی دکھائی نہ دے گی اللہ کی قسم کبھی آرام سے ان کی آنکھ لگے گی ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی کوئی مزے کی چیز کھانے پینے کو ملے گی ہی نہیں ( ابن ابی حاتم ) سورہ بلد کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔