Surah

Information

Surah # 92 | Verses: 21 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 9 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اِنَّ عَلَيۡنَا لَـلۡهُدٰىۖ‏ ﴿12﴾
بیشک راہ دکھا دینا ہمارے ذمہ ہے ۔
ان علينا للهدى
Indeed, [incumbent] upon Us is guidance.
Be-shak raah dikha dena himaray zimmay hai
یہ سچ ہے کہ راستہ بتلا دینا ہمارے ذمے ہے ۔
( ۱۲ ) بیشک ہدایت فرمانا ( ف۱٦ ) ہمارے ذمہ ہے ،
بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے7 ،
بیشک راہِ ( حق ) دکھانا ہمارے ذمہ ہے
سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :7 یعنی انسان کا خالق ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالی نے خود اپنی حکمت ، اپنے عدل اور اپنی رحمت کی بنا پر اس بات کا ذمہ لیا ہے کہ اس کو دنیا میں بے خبر نہ چھوڑے بلکہ اسے یہ بتا دے کہ راہ راست کون سی ہے اور غلط راہیں کونسی ، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ، حلال کیا ہے اور حرام کیا ، کونسی روش اختیار کر کے وہ فرمانبردار بندہ بنے گا اور کونسا رویہ اختیار کر کے بندہ نافرمان بن جائے گا ۔ یہی بات ہے جسے سورہ نحل میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ وَعَلَى اللَّـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ( آیت 9 ) اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ9 ) ۔
مومن کی منزل اللہ تعالیٰ کی رضا: یعنی حلال و حرام کا ظاہر کر دینا ہمارے ذمے ہے ، یہ بھی معنی ہیں کہ جو ہدایت پر چلا وہ یقینا ہم تک پہنچ جائیگاجیسے فرمایا وعلی اللہ قصد السبیل آخرت اور دنیا کی ملکیت ہماری ہی ہے ۔ میں نے بھڑکتی ہوئی آگ سے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے مسند احمد میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے خطبہ کی حالت میں سنا ہے آپ بہت بلند آواز سے فرما رہے تھے یہاں تک کہ میری اس جگہ سے بازار تک آواز پہنچے اور بار بار فرماتے جاتے تھے لوگو! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا چکا ۔ لوگو! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا رہا ہوں ، بار بار یہ فرما رہے تھے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں سے سرک کر پیروں میں گر پڑی صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی قیامت کے دن وہ ہو گا جس کے دونوں قدموں تلے دو انگارے رکھ دئیے جائیں جس سے اس کا دماغ ابل رہا ہو ، مسلم شریف کی حدیث میں ہے ہلکے عذاب والا ہے جہنمی ہو گا جس کی دونوں جوتیاں اور دونوں تسمے آگ کے ہوں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا وہ گا جس طرح ہنڈیا جوش کھا رہی ہو باوجود یہ کہ سب سے ہلکے عذاب والا یہی ہے لیکن اس کے خیال میں اس سے زیادہ عذاب والا اور کوئی نہ ہو گا ، اس جہنم میں صرف وہی لوگ گھیر گھار کر بدترین عذاب کیے جائیں گے جو بد بخت تر ہوں جن کے دل میں کذب بعض ہو اور اسلام پر عمل نہ ہو ، مسند احمد کی حدیث میں بھی ہے کہ جہنم میں صرف شقی لوگ جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ فرمایا جو اطاعت گذار نہ ہوں اور نہ اللہ کے خوف سے کوئی بدی چھوڑتا ہو مسند کی اور حدیث میں ہے میری ساری امت جنت میں جائیگی سوائے اس کے جو جنت میں جانے سے انکار کریں لوگوں نے پوچھا جنت میں جانے سے انکار کرنے والا کون ہے؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا جنت میں جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا جہنم سے دوری اسے ہوگی جو تقویٰ شعار ، پرہیزگار اور اللہ کے ڈر والا ہو گا جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے تاکہ خود بھی پاک ہو جائے اور اپنی چیزوں کو بھی پاک کر لے اور دین دنیا میں پاکیزگی حاصل کر لے کیونکہ یہ شخص اس کے لیے کسی کے ساتھ سلوک نہیں کرتا کہ اس کا کوئی احسان اس پر ہے بلکہ اس لیے کہ آخرت میں جنت ملے اور وہاں اللہ کا دیدار نصیب ہو پھر فرماتا ہے کہ بہت جلد بالیقین ایسی پاک صفتوں والا شخص راضی ہو جائیگا اکثر مفسرین کہتے ہیں یہ آیتیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہیں یہاں تک کہ بعض مفسرین نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے بیشک صدیق اکبر اس میں داخل ہیں اور اس کی عمومیت میں ساری امت سے پہلے ہیں گو الفاظ آیت کے عام ہیں لیکن آپ سے اول اس کے مصداق ہیں ان تمام اوصاف میں اور کل کی کل نیکیوں میں سب سے پہلے اور سب سے آگے اور سب سے بڑھے چڑھے ہوئے آپ ہی تھے آپصدیق تھے پرہیزگار تھے بزرگ تھے سخی تھے ۔ آپ مالوں کو اپنے مولا کی اطاعت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتے رہتے تھے ہر ایک کیساتھ احسان و سلوک کرتے اور کسی دنیوی فائدے کی چاہت پر نہیں کسی کے احسان کے بدلے نہیں بلکہ صرف اللہ کی مرضی کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کے لیے جتنے لوگ تھے خواہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے سب پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احسانات کے بار تھے یہاں تک کہ عروہ بن مسعود جو قبیلہ ثقیف کا سردار تھا صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جبکہ حضرت صدیق نے اسے ڈانٹا ڈپٹا اور دوباتیں سنائیں تو اس نے کہاکہ اگر آپ کے احسان مجھ پر نہ ہوتے جس کا بدلہ میں نہیں دے سکا تو میں آپ کو ضرور جواب دیتا پس جبکہ عرب کے سردار اور قبائل عرب کے بادشاہ کے اوپر آپ کے اس قدر احسان تھے کہ وہ سر نہیں اٹھا سکتا تھا تو بھلا اور تو کہاں ؟ اسی لیے یہاں بھی فرمایا گیا کہ کسی پر احسان کا بدلہ انہیں دینا نہیں بلکہ صرف دیدار اللہ کی خواہش ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کرے اسے جنت کے داروغے پکاریں گے کہ اے اللہ کے بندے ادھر سے آؤ یہ سب سے اچھا ہے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کوئی ضرورت تو ایسی نہیں لیکن فرمائیے تو کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو ۔ الحمد اللہ سورہ اللیل کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ کا احسان ہے اور اس کا شکر ہے ۔