Surah

Information

Surah # 93 | Verses: 11 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 11 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَوَجَدَكَ ضَآ لًّا فَهَدٰى‏ ﴿7﴾
اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی ۔
و وجدك ضالا فهدى
And He found you lost and guided [you],
Aur tujhay raah bhola paker hidayat nahi di?
اور تمہیں راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھایا ( ٤ )
( ۷ ) اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی ( ف۸ )
اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی7 ۔
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا ۔ یا- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان ( رہنمائی فرمانے والا ) پایا تو اس نے ( انہیں آپ کے ذریعے ) ہدایت دے دی ۔ ٭
سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :7 اصل میں لفظ ضالاً استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کہ مختلف راستے جو سامنے ہیں ان میں سے کدھر جاؤں ۔ ایک اور معنی کھوئے ہوئے کے ہیں ، چنانچہ عربی محاورے میں کہتے ہیں ضل الماء فی اللبن ، پانی دودھ میں گم ہو گیا ۔ اس درخت کو بھی عربی میں ضالہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو اور آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو ۔ ضائع ہونے کے لیے بھی لفظ ضلال کا لفظ بولا جاتا ہے ، مثلاً کوئی چیز ناموافق اور ناساز گار حالات میں ضائع ہو رہی ہو ، غفلت کے لیے بھی ضلال کالفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کی مثال موجود ہے کہ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ( طہ ۔ 52 ) میرا رب نہ غافل ہوتا ہے نہ بھولتا ہے ۔ ان مختلف معنوں میں سے پہلے معنی یہاں چسپاں نہیں ہوتے ، کیونکہ بچپن سے قبل نبوت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو حالات تاریخ میں موجود ہیں ان میں کہیں اس بات کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ آپ کبھی بت پرستی ، شرک یا دہریت میں مبتلا ہوئے ہوں ، یا جاہلیت کے جو اعمال ، رسوم اور طور طریقے آپ کی قوم میں پائے جاتے تھے ان میں سے کسی میں آپ ملوث ہوئے ہوں ۔ اس لیے لا محالہ ووجدک ضالاً کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اللہ تعالی نے آپ کو عقیدے یا عمل کے لحاظ سے گمراہ پایا تھا ۔ البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں مراد ہو سکتے ہیں ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں ۔ نبوت سے پہلے حضور اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کے قائل تو ضرور تھے ، اور آپ کی زندگی گناہوں سے پاک اور فضائل اخلاق سے آراستہ بھی تھی ، لیکن آپ کو دین حق اور اس کے اصول اور احکام کا علم نہ تھا ، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ( الشوریٰ ، آیت 52 ) تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی تمہیں کوئی خبر تھی ۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں کہ حضور ایک جاہلی معاشرے میں گم ہو کر رہ گئے تھے اور ایک ھادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے آپ کی شخصیت نبوت سے پہلے نمایاں نہیں ہو رہی تھی ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جاہلیت کے صحراء میں آپ ایک اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے جس میں پھل لانے اور ایک پورا باغ کا باغ پیدا کر دینے کی صلاحیت تھی مگر نبوت سے پہلے یہ صلاحیت کام نہیں آ رہی تھی ۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے جو غیر معمولی قوتیں آپ کو عطا کی تھیں وہ جاہلیت کے ناساز گار ماحول میں ضائع ہو رہی تھیں ۔ ضلال کو غفلت کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے ، یعنی آپ ان حقائق اور علوم سے غافل تھے جن سے نبوت کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو آگاہ فرمایا ۔ یہ بات خود قرآن میں بھی ایک جگہ ارشاد ہوئی ہے: وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ( یوسف 3 ) ۔ اور اگرچہ تم اس سے پہلے ان باتوں سے غافل تھے ( نیز ملاحظہ ہو البقرہ آیت 282 ، اور الشعراء آیت 20 ) ۔