سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :10
اس کے دو معنی ہیں اگر سائل کو مدد مانگنے والے حاجت کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مدد کر سکتے ہو تو کر دو ، نہ کر سکتے ہو تو نرمی کے ساتھ معذرت کر دو ، مگر بہرحال اسے جھڑکو نہیں ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ ہدایت اللہ تعالی کے اس احسان کے جواب میں ہے کہ تم نادار تھے پھر اس نے تمہیں مالدار کر دیا ۔ اور اگر سائل کو پوچھنے والے ، یعنی دین کا کوئی مسئلہ یا حکم دریافت کرنے والے کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص خواہ کیسا ہی جاہل اور ا جڈ ہو ، اور بظاہر خواہ کتنے ہی نامعقول طریقے سے سوال کرے یا اپنے ذہن کی الجھن پیش کرے ، بہرحال شفقت کے ساتھ اسے جواب دو اور علم کا زعم رکھنے والے بد مزاج لوگوں کی طرح اسے جھڑک کر دور نہ بھگا دو ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ ارشاد اللہ تعالی کے اس احسان کے جواب میں ہے کہ تم ناواقف راہ تھے پھر اس نے تمہیں ہدایت بخشی ۔ حضرت ابو الدردا ، حسن بصری ، سفیان ثوری اور بعض دوسرے بزرگوں نے اسی دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ ترتیب کلام کے لحاظ سے یہ ارشاد وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ کے جواب میں آتا ہے ۔